آیت نمبر 41 تا 44
حضرت ایوب کے صبر کا قصہ تو ایک مثال بن گیا ہے۔ اور بہت ہی معروف ومشہور ہے۔ صبر ایوبی ایک محاورہ ہے۔ لیکن اس قصے کے اوپر اسرائیلی روایات کی تہہ جم گئی ہے۔ اور حقیقت خرافات میں کھوگئی ہے۔ اصل حقیقت وہ ہے جس طرح قرآن کریم تصریح کرتا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) بندۂ صالح اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ اللہ کی آزمائش ان پر آئی اور اس میں انہوں نے خوب صبر فرمایا۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی آزمائش اس طرح تھی کہ مال چلا گیا ، صحت چلی گئی اور بیوی بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ لیکن ان تمام جان لیوا تکالیف میں انہوں نے رب تعالیٰ کا دامن تھامے رکھا۔ اللہ پر ان کا بھروسہ رہا اور وہ راضی برضائے الہٰی رہے۔
شیطان ان لوگوں کے دل میں وسوسے ڈالتا رہا جو تعداد میں تھوڑے تھے مگر ان کے ساتھ وابستہ رہے ۔ ان میں سے ان کی بیوی بھی تھی۔ شیطان ان کے دلوں میں یہ وسوسے ڈالتا کہ اگر ایوب اللہ کا برگزیدہ بندہ ہوتا تو اللہ ہرگز ان کو اس آزمائش میں نہ ڈالتا۔ جب یہ لوگ حضرت ایوب کو یہ باتیں بتاتے تو مالی جسمانی مصیبت سے بھی زیادہ اذیت ان کو ان شیطانی وسوسہ اندازیوں سے ہوتی ۔ جب ان کی بیوی نے ان کے سامنے ایسی باتیں کیں تو آپ نے حلف اٹھایا کہ اگر اللہ نے اس مصیبت سے نجات دی اور وہ تندرست ہوگئے تو بیوی کو کوڑے ماریں گے۔ بعض نے سو کوڑے کہا ہے۔
انہی آزمائشوں پر جب شیطان کی جانب سے ایذارسانی بھی شروع ہوگئ اور اس کا اثر ان کے مخلصین پر بھی ہوتا شروع ہوگیا اور خود ان کے دل پر اثر ہوگیا تو وہ درست بدعا ہوئے۔
انی مسنی ۔۔۔ و عذاب (38: 41) ” کہ شیطان نے مجھے تکالیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے “۔