وعجبوآ۔۔۔ منھم (38: 4) ” اور ان لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود انہی میں سے آگیا “۔ حالانکہ مناسب ترین بات تو یہی ہے کہ ڈرانے والا انہی میں سے ہو ، وہ بشر ہو اور یہ بات جانتا ہو کہ انسان کیا سوچتے ہیں اور ان کے احساسات کیا ہوتے ہیں ۔ ان کے خلجانات کیا ہوتے ہیں اور ان کے وجود میں کیا کشمکش ہے۔ اور ان کے اندر کیا کیا کمزوریاں ہوتی ہیں اور کیا کیا کو تاہیاں ان کے وجود میں ہوتی ہیں۔ ایک انسان ہی یہ جان سکتا ہے کہ انسان میں کہاں کہاں کیا کمزوری ہے۔ کہاں کہاں وہ جذبات اور میلانات کا دباؤ محسوس کرتا ہے۔ اس کی وسعت اور قدرت کی حدود کیا ہیں۔ وہ کس قدر مشقت برداشت کرسکتے ہیں۔ کن کن رکاوٹوں اور مشکلات کے سامنے وہ بےبس ہوجاتے ہیں اور کیا کیا چیزیں ان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
رسول ایک انسان ہوتا ہے ' انسانوں سے ہوتا ہے ، انسانوں میں رہتا ہے تو اس کی زندگی ان کے لیے نمونہ ہوتی ہے۔ اور وہ اس کے اسوہ کو اپناتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارا ہی بھائی ہے اور ہم ہی میں سے ہے ۔ اور یہ کہ قوم اور رسول کے ردمیان انسانی اور سماجی روابط پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ لہذا وہ اس منہاج کو اپنا سکتے ہیں جس پر وہ ہوتا ہے۔ اور لوگوں سے بھی یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ اسے اپناؤ۔ کیونکہ رسول جیسے طرز عمل کو وہ بھی اپنا سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ اس نظام پر ایک شخص نے عمل کرکے دکھا دیا ہے ۔ جو خود ان میں سے ہے اور ان جیسا انسان ہے۔
لیکن یہ بات تعجب انگیز ہے کہ معقول ترین اور لازمی امر بھی ہمشہ لوگوں کے لیے باعث تعجب بنارہا ہے۔ وہ اسے انوکھا سمجھتے رہے ہیں اور تکذیب کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ انسانوں میں سے رسول بھیجنے کی حکمت کو نہ سمجھتے تھے۔ وہ رسالت کے منصب کو بھی نہ سمجھتے تھے۔ بجائے اس کے کہ وہ رسول کو ایک بشر قائد اور راہنما سمجھتے جو ان کو اللہ کی راہ دکھاتا ہے ' وہ رسول کو ایک عجوبہ ناقابل فہم اور خیالی شخصیت سمجھتے تھے۔ وہ یوں سیدھے سادے انسانوں کو رسول نہ مانتے تھے۔ وہ رسول کو بھی ایسی شخصیت سمجھتے تھے جو خیالی ہو ' جسے چھوانہ جاسکتا ہو۔ جسے دیکھا نہ جاسکتا ہو۔ وہ ظاہر و باہر نہ ہو ، جو اس کرۂ ارض پر ایک عملی زندگی نہ رکھتا ہو۔ غرض وہ رسولوں کو ایک افسانوی شخصیت کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اور جس طرح ان کے عقائد تھے وہ رسولوں کو بھی ایسا ہی دیکھنا چاہتے تھے۔
لیکن اللہ کی مرضی یہ تھی کہ انسانوں کے لیے اس کی یہ آخری رسولت نہایت عملی اور واقعیت پسندانہ ہو۔ اس میں لوگوں کے لیے پاکیزہ ' طیب اور اعلیٰ درجے کی زندگی کا انتظام ہو۔ اور یہ آخری رسالت زمین کے اوپر ایک حقیقت ہو۔ اوہام تخیلات اور محض ہوائی مثالوں پر مبنی نہ ہو۔ حقائق پر مبنی ہو ' محض اوہام واساطیرنہ ہو۔
وقال۔۔۔ کذاب (38: 4) ” منکرین کہنے لگے یہ تو ساحر ہے ' سخت جھوٹا ہے “۔ اور کافروں نے یہ بات محض اس لیے کہی کہ وہ اپنے جیسے ایک شخص کی رسالت کا تصور ہی نہ کرسکتے تھے۔ اور پھر انہوں نے یہ بات اس لیے بھی کہی کہ لوگ حضرت محمد ﷺ سے متنفر ہوجائیں اور ہو سچائی جو حضرت محمد ﷺ لے کر آئے تھے جو واضح تھی اور پھر حضرت محمد ﷺ چونکہ صدق وصفا میں مشہور تھے ، وہ اس کو لوگوں کی نظروں میں مشتبہ بنانے کے لیے ایسا کرتے تھے۔
اصل حقیقت یہ ہے اور اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ مشرکین مکہ نے کسی بھی مرحلے میں خود اپنی اس بات کو کبھی بھی سچا نہیں سمجھا کہ حضرت محمد ﷺ جادوگر ہیں یا بہت بڑے جھوٹے ہیں کیونکہ وہ حضرت محمد ﷺ کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے خلاف پروپیگنڈے اور گمراہ کن نشرواشاعت کی جو مہم چلا رہے تھے۔ یہ اس کے ہتھیاروں میں سے ایک اوچھا ہتھیار تھا۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو اپنے مقام و مرتبہ کو اور اپنے غلط عقائد کو بچانا چاہتے تھے ۔ کیونکہ تحریک اسلامی کی صورت میں ان کو خطرہ درپیش تھا ' اس کی وجہ سے ان کی کھوٹی اور جھوٹی اقدار کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا اور ان کی بناوٹی طریقوں کے وجود تک کو خطرہ لاحق تھا اور کبرائے قریش اسے اچھی طرح سمجھتے تھے۔
ہم نے یہ بات اس سے پہلے بھی نقل کی ہے اور یہاں بھی نقل کررہے ہیں کہ کبرائے قریش نے پروپیگنڈے کی یہ جھوٹی مہم نہایت ہی سنجیدگی اور سوچ سمجھ کر شروع کی تھی ۔ اس طرح وہ اپنے وجود اپنے طور طریقوں اور اپنے نظریات کو بچانا چاہتے تھے ۔ نیز اسطرح موسم حج میں عرب قبائل میں تحریک اسلامی کے اثرات کے پھیلنے کا جو خطرہ کا جو درپیش تھا اسکا وہ سدباب چاہتے تھے
محمد ابن اسحاق نے نقل کیا ہے کہ ولید ابن مغیرہ کے پاس کے کچھ معمر لوگ جمع ہوئے ' موسم حج آنے والا تھا۔ ولید نے ان سے کہا کہ اکابرین قریش آپ کو معلوم ہے کہ موسم حج آرہا ہے اور عرب کے وفود آنے شروع ہوں گے۔ نیز انہوں نے اس شخص کے بارے میں بھی سن رکھا ہوگا ۔ لہذا اس موضوع پر اپنی بات کو ایک کرلو۔ یوں نہ ہو کہ ہر شخص ایک علیحدہ بات کرے اور تم سب ایک دوسرے کی تکذیب کرتے پھرو۔ تو انہوں نے کہا عبدشمس تم ہی کچھ کہو اور ہمیں ایک مضبوط موقف دے دو تاکہ ہم سب ایک ہی بات کریں تو ولید نے کہا تم کہو میں سن کر قیاس کروں گا۔ کسی نے کہا اسے کاہن کہو ، ولید نے کہا یہ تو بات نہیں ہے۔ خدا کی قسم یہ کاہن نہیں ہے۔ ہم نے کاہنوں کو خوب دیکھا ہوا ہے۔ نہ قرآن کاہنوں کا زمزمہ ہے اور نہ ان کا مسجع کلام ہے تو کسی نے کہا اسے پاگل کہو۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ مجنون بھی نہیں ہے۔ لوگ مجنونوں اور پاگلوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ نہ وہ مجنونوں کی طرح گلوگیر ہے۔ نہ ذہنی خلجان میں مبتلا ہے اور نہ اسے کوئی وسوسہ ہے۔ تو پھر اسے شاعر کہنا چاہئے۔ تو اس نے کہا کہ اس کا کلام شعر بھی نہیں ہے۔ ہم اشعار کو جانتے ہیں۔ نہ رجز ہے نہ ہزج ہے ' نہ قریض ہے ' نہ مقبوض ہے ' نہ مبسوط ہے۔ لہذا یہ کلام شعر نہیں ہے تو انہوں نے کہا پھر اسے جادوگر ہی کہا جاسکتا ہے۔ تو ولید نے کہا وہ تو جادوگر بھی نہیں ہے ۔ ہم نے جادوگر بھی دیکھے ہوئے ہیں۔ ان کے جادو کے کرشمے بھی دیکھے ہوئے ہیں۔ نہ یہ ان کی پھونک ہے اور نہ ان کی بندش ہے تو ان اکابرین نے کہا عبدشمس پھر تم ہی بتاؤ کہ کیا کہیں اسے ۔ تو اس نے کہا خدا کی قسم اس کی بات میں مٹھاس ہے۔ اس کی جڑیں بہت ہی گہری ہیں۔ اور اس کی شاخوں پر پھل ہیں اور تم ان باتوں میں سے جس کا بھی پروپیگنڈہ کرو معلوم ہوگا کہ تمہاری بات غلط ہے۔ ہاں ممکن حد تک کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ تم اسے ساحر کہو کہ وہ جو کلام لایا ہے وہ جادو کی طرح ایک شخص اور اس کے بھائی ' ایک شخص اور اس کی بیوی ایک شخص اور اس کے خاندان کے درمیان تفریق کرتا ہے۔ لہذا سب یہی ایک بات کرو ' چناچہ موسم حج میں یہ لوگ راستوں پر بیٹھ گئے ۔ اور جو بھی گزرتا اسے وہ کہتے تھے کہ لوگو ڈرو اس شہر میں ایک جادوگر پیدا ہوگیا ہے۔ اور یہ ازخود حضرت محمد ﷺ کے بارے میں تفصیلات بتاتے۔ یہ تھی حقیقت اس بات کی جو وہ کہتے تھے۔
سحر کذاب (38: 4) جبکہ وہ خود جانتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ سچ کہتے تھے ' نہ ساحر تھے اور نہ کذاب تھے۔
نیز وہ اس بات پر بھی تعجب کرتے تھے کہ وہ تمام الہوں کی جگہ ایک ذات کو الہہ ماننے کی دعوت دے رہا ہے۔ حالانکہ سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ اس کائنات کا الہہ ایک ہی ہے۔
0%