undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 4 { وَعَجِبُوْٓا اَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ } ”اور انہیں بڑا تعجب ہوا ہے کہ ان کے پاس آیا ہے ایک خبردار کرنے والا ان ہی میں سے“ { وَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ہٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ } ”اور کافر کہتے ہیں کہ یہ ساحر ہے ‘ کذاب ّہے۔“ یہ بہت سخت الفاظ ہیں ‘ لیکن قرآن نے مشرکین ِمکہ ّکے قول کے طور پر انہیں جوں کا توں نقل کیا ہے۔ ان الفاظ سے دراصل حضور ﷺ کی مخالفت کی اس کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے جو اس سورت کے نزول کے وقت مکہ کے ماحول میں پائی جاتی تھی۔ اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے یہ معلومات اپنے حافظے میں پھر سے تازہ کرلیں کہ مکی سورتوں کے پچھلے گروپ کی آٹھ سورتیں الفرقان تا السجدۃ اور زیر مطالعہ گروپ کی تیرہ سورتیں سبا تا الاحقاف 4 نبوی ﷺ سے 8 نبوی ﷺ کے زمانے میں نازل ہوئیں۔ ان میں سے سورة الصّٰفّٰت البتہ اس دور کی سورت نہیں ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آیات پانچ رکوعوں میں 182 آیات ہیں اور ایک رکوع میں 53 آیات بھی ہیں اور تیز ردھم سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ابتدائی دور کی سورت ہے۔ بہر حال ان سورتوں کا نزول جس دور 4 تا 8 نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہوا ‘ اس دور میں حضور ﷺ کی مخالفت بہت شدت اختیار کرچکی تھی اور اسی نسبت سے آپ ﷺ پر ہونے والے حملوں کی نوعیت میں بھی تبدیلی آچکی تھی۔ ابتدا میں تو اکثر لوگوں نے آپ ﷺ کی باتوں پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس لیے اس زمانے میں اگر کوئی شخص آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتا تو وہ آپ ﷺ کو مجنون وغیرہ کہہ دیتا ‘ بلکہ ابتدا میں تو بعض لوگوں کے ہاں اس حوالے سے آپ ﷺ کے ساتھ ہمدردی کا انداز بھی پایا جاتا تھا۔ اس وقت بعض لوگ تو واقعی سمجھتے تھے کہ غار حرا میں راتیں گزارنے کی وجہ سے آپ ﷺ پر کوئی آسیب وغیرہ آگیا ہے۔ چناچہ ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ نے آپ ﷺ سے بہت ہمدردی کے انداز میں کہا تھا کہ اے میرے بھتیجے ! عرب کے بہت سے کاہنوں اور عاملوں کے ساتھ میرے تعلقات ہیں ‘ اگر تم کہو تو میں ان میں سے کسی کو بلا کر تمہارا علاج کرا دوں۔ البتہ جب مشرکین مکہ نے دیکھا کہ وہ آواز جس کو وہ محض ایک شخص کی پکار سمجھتے تھے اب گھر گھر میں گونجنے لگی ہے اور جس تحریک کو انہوں نے ایک مشت ِغبار سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا اب وہ ایک طوفان کا روپ دھار کر ان کے پورے معاشرے کو زیر و زبر کرنے والی ہے تو ان کی مخالفت میں بتدریج شدت آتی گئی۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ سٰحِرٌ کَذَّابٌ ایسے ہی شدید مخالفانہ جذبات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%