آیت نمبر 30 تا 40
یہاں دو اشارات ہیں۔ ایک الصافنات المجیاد ہے یعنی اچھے سدھے ہوئے قیمتی گھوڑے ۔ اور دوسرا اشارہ یہ کہ حضرت سلیمان کی کرسی پر ایک حسد ڈال دیا۔ ہمارے تفسیری ذخیرے میں قدد روایات یا تاویلات وارد ہیں۔ ان میں سے ان اشارات کی تفسیر میں کسی ایک تفسیر اور روایت پر میرا دل مطمئن نہیں ہے۔ جہاں تک روایات کا تعلق ہے ، ان میں سے بہت تو اسرائیلیلت سے متعلق ہیں اور تفاسیر جو بھی کی گئی ہیں وہ ایسی تاویلات ہیں جن کے اوپر کوئی سند نہیں ہے۔ یہ دو واقعات اصل میں کیا ہیں ؟ ان کے بارے میں کوئی اطمینان بخش چیز سامنے نہیں آئی تاکہ اس پر غور کرکے میں یہاں نقل کردوں ۔ ماسوائے ایک حدیث کے اور کوئی صحیح حدیث بھی منقول نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جائے۔ ایک صحیح حدیث ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا تعلق ان واقعات کے ساتھ ہے ۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے۔ امام بخاری نے یہ حدیث مرفوعاً نقل کی ہے۔ ” حضرت سلیمان نے کہا میں آج رات اپنی ستر بیویوں کے پاس جاؤں گا۔ ہر ایک سے ایک جوان پیدا ہوگا۔ جو کہاد فی سبیل اللہ کرے گا۔ لیکن انہوں نے انشاء اللہ نہ کہا ۔ وہ ان بیویوں کے پاس گئے ۔ ان میں سے صرف ایک کا حمل ٹھہرا اور جب بچہ پیدا ہوا تو ناتمام تھا۔ خدا کی قسم اگر حضرت سلیمان انشاء اللہ کہتے تو یقیناً یہ سب اللہ کی راہ میں جہاد کرتے “۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ان آیات میں جس فتنے کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ یہی ہو اور ان کی کرسی پر یہی جسد ناتمام پھینکا گیا ہو۔ لیکن یہ بھی احتمال درجے میں ہے۔ گھوڑوں کا قصہ یہ بیان کیا گیا ہے شام کے وقت ان کے سامنے گھوڑے پیش کیے گئے اور غروب سے قبل وہ جو عبادت کرتے تھے وہ قضا ہوگئی تو حضرت نے کہا ان سب گھوڑوں کو واپس کرو ' چناچہ انہوں نے ان کی گردنوں اور پنڈلیوں کو تلوار سے کاٹنا شروع کیا۔ کیونکہ ان کی وجہ سے ان کی نماز قضا ہوئی اور وہ ذکر رب سے غافل ہوگئے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ ان کے پاؤں اور گردنوں پر ہاتھ پھیر کر ان کو تھپکی دیتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ کہ یہ اللہ کی راہ میں لڑنے والے گھوڑے ہیں۔ دونوں روایتوں پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور اس کے بارے میں کوئی فرضی بات نہیں کرسکتے ۔ لہٰذا کوئی محقق ان دونوں واقعات کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کرسکتا۔
جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی آزمایا گیا۔ اور یہ آزمائش امور مملکت کے بارے میں تھی اور اسی نوعیت کی تھی جس طرح تمام انبیاء کو راہ حق دکھانے کے لیے آزمایا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس راہ میں ان سے کوئی لغزش سرزدنہ ہوجائے۔ اس آزمائش کے بعد حضرت سلیمان نے اپنے رب کی طرف انابت اور رجوع کرلیا اور مغفرت طلب کی۔ اور اللہ کی طرف مڑکر دست بدعا ہوئے :
قال رب۔۔۔۔ انت الوھاب (38: 35) ” کہا ' اے میرے رب مجھے معاف کر اور مجھے بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو ' بیشک تو ہی اصل داتا ہے “۔
حضرت سلیمان کی مذکورہ بالا دعا کا مطلب جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسی خصوصیات چاہتے تھے جو معجزانہ ہو۔ یعنی ان کو حکومتی اقتدار چلانے کے لیے معجزانہ قوتیں دی جائیں اور تمام دوسرے ذی اقتدار لوگوں سے یہ اعجاز مختلف ہو۔ اس کی متعین شکل ہو ، جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہ ہو۔ یعنی عوام الناس کے ہاں جس طرح کی حکومتیں متعارف ہیں۔
رب تعالیٰ نے بھی ان کی دعا قبول کرنے میں دیر نہیں فرمائی ۔ چناچہ جیسی حکومت انہوں نے چاہی تھی وہ ان کو دے دی ۔ ایسی حکومت جو آئندہ کسی کو نہ دی جائے گی۔