کم اھلکنا۔۔۔۔ حین مناص (38: 3) ” ان سے پہلے ہم ایسی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں اور جب ان کی شامت آئی تو وہ چیخ اٹھے ہیں مگر وہ وقت بچنے کا نہیں “۔
شاید تاریخ کے ان صفحات کے مطالعے کا ان پر اثر ہوا اور وہ اپنے کبروغرور سے دستکش ہوجائیں اور اپنی بےجا دشمنی کو ترک کردیں ۔ اور اپنے آپکو اس موقف پر کھڑانہ کریں جو ان ہلاک شدہ اقوام کا تھا کہ وہ چیختے پکارتے رہے لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ اب تو انکے سامنے وسیع وقت ہے۔ وہ اس بےبسی کی پکار سے بچ سکتے ہیں ۔ جب کوئی سننے والا نہ ہو۔ اور نہ بچنے کی کوئی راہ ہو۔
یہ تو تھی ان کو جھنجھوڑنے کے لیے ایک سخت ضرب ۔ اب تفصیلاً بتایا جارہا ہے کہ ان کے تکبر اور ان کی دشمنی کی تفصیلات
کیا تھیں ۔ سنئے تفصلات :
آیت نمبر 4 تا 7
ترجمہ : ان لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ایک ذرانے والا خود انہی میں سے آگیا۔ منکرین کہنے لگے کہ ” یہ ساحر ہے ' سخت جھوٹا ہے ' کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے “۔ اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ ” چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر۔ یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جارہی ہے۔ یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی۔ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات “۔ تکبر یہ تھا۔
ء انزل ۔۔ بیننا (38: 8) ” کیا ہمارے درمیان بس یہی شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کردیا گیا “۔ اور دشمنی یہ تھی کہ
اجعل ۔۔۔ واحدا (38: 5) ” کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا “۔ اور یہ بھی دشمنی کی وجہ ہے۔
ماسمعنا۔۔۔ الاخرۃ (38: 7) ” یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی “۔ اور یہ کہ ھذاسحر کذاب (38: 4) ” یہ جادوگر ہے بڑا جھوٹا “۔ اور ان ھذا لاً اختلاق (38: 7) ” یہ کچھ نہیں مگر ایک من گھڑت بات “۔ یہ سب دشمنی کی وجوہات تھیں۔ رسول کا انسان ہونا زمانہ قدیم سے قابل تعجب رہا ہے۔ ہر زمانے میں اس کا اعادہ ہوا ہے ۔ جب سے رسالتوں کا آغاز ہوا ہے۔ اعتراض ہوتا رہا ہے۔ رسول بھی آتے رہے اور اس قسم کے اعتراضات بھی ہوتے رہے۔
0%