undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 29 { کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ} ”اے نبی ﷺ ! یہ کتاب جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے بہت بابرکت ہے“ عربی میں اَلْـبَرَکَۃ کسی چیز میں سے اس کے خیر کو نکالنے والے عامل کو کہتے ہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے ایک ایسے شخص کی مثال لیں جس کے اندربالقوۃ ُ potentially کوئی مثبت صلاحیت یا اہلیت موجود ہے مگر چونکہ اس کی وہ صلاحیت غیر فعال dormant ہے اس لیے نہ تو اسے اس کا شعور ہے اور نہ ہی وہ اس سے کوئی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ چناچہ اگر کوئی واقعہ یا کسی دوسرے شخص کا کوئی عمل یا کسی کی کوئی نصیحت اسے اس صلاحیت کا احساس دلا دے اور وہ اسے بروئے کار لانا شروع کر دے تو وہ واقعہ یا عمل گویا اس کے لیے برکت کا باعث بن گیا۔ اسی مفہوم میں بارش کے پانی کو قرآن میں مآئً مُبٰرَکاً قٓ: 9 کہا گیا ہے۔ اس پانی کی برکت کا مشاہدہ ہم اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ زمین میں روئیدگی کی صلاحیت تو بالقوہ potentially موجود ہے مگر خشک اور بےآب وگیاہ زمین میں مختلف قسم کے بیشمار بیج ُ خفتہ dormant حالت میں بیکار پڑے رہتے ہیں۔ جب بارش کا پانی اس زمین کو سیراب کرتا ہے تو اس کے اندر جذب کا عمل osmosis شروع ہوتا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے اس کے اندر موجود بیجوں کی قوت نمو کو انگیخت ملتی ہے ‘ زمین کی خفتہ قوت یا صلاحیت بھی فعال ہوجاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس میں طرح طرح کے نباتات اگنے لگتے ہیں۔ تو اس طرح گویا خشک زمین کے لیے بارش کا پانی مبارک یا باعث برکت ثابت ہوا۔ لفظ بَرَکۃ سے متعلق اس وضاحت کی روشنی میں آیت زیر مطالعہ کا مفہوم یوں ہوگا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو انسانی روح کی نشوونما کے لیے غذا فراہم کرتی ہے اور روح کے اندر موجود خیر اور نیکی کی غیرفعال dormant صلاحیت کو انگیخت دے کر اسے عمل صالح کے صدور کے قابل بناتی ہے۔ علامہ اقبالؔ نے انسان کو اس کی روح کی اہمیت کا احساس ان الفاظ میں دلایا ہے : ؎ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ِادراک نہیں ہے ! { لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰـتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ } ”تاکہ وہ اس کی آیات پر تدبر کریں اور ہوش مند لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔“