اس قصے پر جو تبصرہ آیا ہے ، وہ صاف صاف بتاتا ہے کہ حضرت داؤد کی آزمائش کی نوعیت کیا تھی۔ اللہ نے حضرت داؤد کو حکومت دی تھی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلے کریں ، اس لیے متعین ہوگیا کہ اس آزمائش و امتحان کا تعلق
جو ڈیشل پر وسیڈنگز سے تھا۔ چناچہ کہا گیا :
آیت نمبر 26
حضرت داؤد (علیہ السلام) کو یہ کہا گیا کہ آپ کو زمین کا اقتدار اعلیٰ دیا گیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان حق پر مبنی فیصلے کریں اور ان فیصلوں میں اپنی ذاتی چاہت کا خیال نہ رکھیں ۔ جہاں تک نبی کا تعلق ہے وہ تو خواہشات نفس کی پیروی سے محفوظ ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ابتدائی میلان پر ہی فیصلہ نہ کردیا کریں۔ یہ نہ ہو کہ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیقات کیے ہی فیصلہ نہ کردیا کریں۔ کیونکہ اس طرح جلدی میں بغیر تحقیق کے فیصلے غلط ہوتے ہیں۔ آیت کے آخر میں حکم عام ہے۔ ان تمام لوگوں کیلیے جو اللہ کے راستے سے گمراہ ہوتے ہیں۔ جو اللہ کو بھول جاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قیامت کے دن شدید عذاب سے دوچار ہوں گے۔
خلافت ارضی میں سچائی پر چلنے کے اصول کے طے ہونے کے بعد اور لوگوں کے درمیان سچائی اور حق پر مبنی فیصلے کے احکام کے بعد اور قصہ داؤد (علیہ السلام) کے ختم ہونے سے پہلے اس سچائی کو اس عالم گیر سچائی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے جس کے اوپر زمین و آسمان قائم ہیں اور آسمان اور زمینوں کے درمیان پوری کائنات قائم ہے۔ یہ سچائی اس کائنات کے اندر بہت گہری ہے اور صرف خلاف فی الارض کی سچائی اور لوگوں کے درمیان عدل کی سچائی سے بہت عام ہے۔ یہ سچائی اس زمین سے بھی وسیع تر ہے جبکہ یہ صرف اس دنیا کی زندگی سے بھی آگے عالم آخرت تک پھیلی ہوئی ہے ۔ جس طرح یہ کائنات اس کی لپیٹ میں ہے اسی طرح عالم آخرت بھی اس کی لپیٹ میں ہے ۔ اس عالم گیر سچائی پر یہ آخری رسالت مبنی ہے اور اللہ کی یہ آخری کتاب اسی ہمہ گیر اور والم گیر سچائی کی مظہر اور مفسر ہے۔