قال لقد۔۔۔ ماھم (38: 24) ” داؤد نے جواب دیا اس شخص نے اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملالینے کا مطالبہ کرکے یقیناً تجھ پر ظلم کیا اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر رہنے والے اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں۔ بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے ہوں اور عمل صالح کرتے ہیں اور ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں “۔ خلطاء سے مراد قربا جو اکٹھے ہوتے رہتے ہیں۔ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اشخاص اس مرحلے پر غائب ہوگئے کیونکہ یہ فرشتے تھے اور امتحان لینے آئے تھے یعنی اس نبی کا امتحان مطلوب تھا جسے اللہ نے عوام الناس کا حاکم اور سربراہ اور جج بنایا تھا۔ اور حکم دیا تھا کہ لوگوں کے درمیان عدل کے مطابق فیصلہ کریں۔ اور فیصلہ سنانے سے قبل مقدمات کی اچھی طرح تفتیش کریں۔ امتحان اس طرح زیادہ شدید ہوجاتا ہے جب ان کے سامنے ایک ایسا مقدمہ پیش کیا جاتا ہے تو بادی النظر میں صریح ظلم نظر آتا ہے لیکن ایک جج کا یہ رویہ ہوتا ہے کہ وہ کسی فریق کی بات سے متاثر نہ ہو وہ جلدی میں فیصلہ نہ کرے ۔ محض ظاہری باتوں یا حالات پر فیصلہ نہ کرے۔ بیان دعویٰ کے مقابلے میں جواب دعویٰ طلب کرے ۔ کیونکہ بعض اوقات جواب دعویٰ سننے سے دعویٰ کی حیثیت ہی بدل جاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ بیان دعویٰ اگر ظاہراً درست ہے مگر درحقیقت مسئلہ کی نوعیت دوسری ہے ۔ یا یہ کہ مدعی بعض باتیں چھپا رہا ہے اور دھوکہ دے رہا ہے۔ اس مقام پر داؤد (علیہ السلام) کو یہ خیال آیا کہ یہ معاملہ کوئی حقیقی مقدمہ نہ تھا بلکہ پرچہ امتحان تھا۔
وظن داود انما فتنه (38: 24) ” اب داؤد کو یقین ہوگیا کہ ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے “۔ یہاں اب ان کا اصل مزاج سامنے آتا ہے۔ وہ تو ہر معاملے میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔
فاستغفر ۔۔۔۔ اناب (38: 24) ” السجدۃ “” چناچہ اسنے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کرلیا “۔