آنے والے دونوں آدمیوں نے جو مقدمہ پیش کیا وہ کوئی حقیقی مقدمہ نہ تھا بلکہ تمثیل کی زبان میں خودحضرت داؤد علیہ السلام کی کسی بات پر انھیں متنبہ کرنا تھا۔ چنانچہ مقدمہ کا فیصلہ دیتے دیتے آپ کو اپنا وہ معاملہ یاد آگیا جو مذکورہ مثال سے ملتا جلتا تھا۔ آپ نے فوراً اس سے رجوع کرلیا اور اللہ کے آگے سجدہ میں گر پڑے۔
حضرت داؤد کو اس وقت زبردست اقتدار حاصل تھا۔ مگر انھوں نے آنے والوں کو نہ تو کوئی سزا دی اور نہ انھیں برا بھلا کہا۔یہی اللہ کے سچے بندوں کا طریقہ ہے۔ ان کے اندر کسی معاملہ میں ضد نہیں ہوتی۔ انھیں جب ان کی کسی خامی کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ فوراً اس کو مان کر اپنی اصلاح کرلیتے ہیں، خواہ وہ بااقتدار حیثیت کے مالک ہوں اور خواہ متوجہ کرنے والے نے انھیں بے ڈھنگے طریقہ سے متوجہ کیا ہو۔