’’ذکر‘‘ کے اصل معنی یاد دہانی کے ہیں۔یاد دہانی کسی ایسی چیز کی کرائی جاتی ہے جو بطور واقعہ پہلے سے موجود ہو۔ قرآن کے ذی الذکر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ان حقیقتوں کو ماننے کی دعوت دیتاہے جو انسانی فطرت میں پہلے سے موجود ہیں۔ قرآن کی کوئی بات اب تک خلاف واقعہ یا خلاف فطرت نہیں نکلی۔ یہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ قرآن سراسر حق ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ قرآن کو نہ مانیں ان کے نہ ماننے کا سبب یقینی طور پر نفسیاتی ہے، نہ کہ عقلی۔ ان کا نہ ماننا کسی دلیل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس ليے ہے کہ اس کو مان کر ان کی بڑائی ختم ہوجائے گی۔
قرآن اُس دعوت توحید کا تسلسل ہے جو پچھلے ہر دور میں مختلف نبیوں کے ذریعہ جاری رہی ہے۔پچھلے زمانوں میںجن لوگوںنے اس دعوت کا انکار کیا وہ ہلاک کردئے گئے۔ حال کے منکرین کو ماضی کے منکرین کے اس انجام سے سبق لینا چاہيے۔
0%