انا سخرنا۔۔۔۔ له اواب (38: 18 تا 19) ” ہم نے پہاڑوں کو اس کے ساتھ متحرک رکھا تھا کہ صبح وشام وہ اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔ پرندے سمٹ آتے سب کے سب اس کی تسبیح کی طرف متوجہ ہوجاتے “۔
عام لوگ اگر اس آیت کو پڑھیں تو حیران رہ جائیں گے کہ جامد پہاڑ کس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح کرتے تھے اور یہ تسبیح وہ صبح و شام کرتے تھے ، خصوصاً جب وہ اپنے رب کی یاد کے لیے تخلیہ میں جاتے تھے۔ وہاں وہ اللہ کی حمد گاتے تھے۔ نہایت ہی خوش الحانی کے ساتھ ۔ اور اللہ کی تعریف وتمجید کرتے تھے۔ پرندے ان کے نغمات کو سن کر جمع ہوتے تھے ۔ اور وہ بھی ان کو دہراتے تھے۔ فی الواقع لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن ہوگی۔ کیونکہ عادی امور اور عادی روش اس کے خلاف ہے۔ لوگ جب نشین ہوتے ہیں تو وہ ایسی باتیں محسوس نہیں کرتے۔ انسانوں اور پرندوں کے اجناس میں اور جامد پہاڑوں کے درمیان یہ یگانگت کیسے وجود میں آگئی۔
لیکن اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ کوئی تعجب خیز دعویٰ نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تمام مخلوقات کی حقیقت اور ماہیت ایک ہے۔ اگرچہ شکل و صورت اور جنس ونوع میں وہ باہم مختلف ہیں۔ یہ سب چیزیں اپنے خالق کے حوالے سے ایک ہیں۔ اور ایک کلی وجود کا حصہ ہیں۔ زندہ وجود ہو یا غیر زندہ چیزیں ہوں۔ جب ایک انسان اپنے رب کے لیے خالص ہوجاتا ہے اور اسے صفائے باطن اور اشراق کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے تو جنس ونوع کے یہ تمام پردے اٹھ جاتے ہیں اور یہ تمام چیزیں اپنی اصل حقیقت کے ساتھ سامنے آجاتی ہیں۔ یہ سب مخلوق ان ظاہری پردوں کی پشت سے ایک ہوجاتی ہیں ۔ مختلف اجناس ، اصناف ، شکلیں اور صورتیں ، ظاہری رنگ اور خصوصیات تو دراصل پردے ہیں۔ حقیقت ان کے پیچھے ہے۔