درس نمبر 212 تشریح آیات
یہ پورا سبق قصص اور رسولوں کی زندگیوں کی اعلیٰ مثالوں پر مشتمل ہے۔ یہ مثالیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس لیے پیش کی جارہی ہیں کہ آپ ذرا رسل سابقین کی زندگیوں پر غور کریں اور فریش کو تکذیب کررہے تھے۔ الزام تراشیاں کرتے تھے ' الزام لگاتے تھے اور آپ کی رسالت کو انوکھا سمجھتے تھے ، اس پر صبر کریں اور ان مشکلات کو برداشت کریں جن کی وجہ سے انسان کا جی بھر آتا ہے۔
یہ تمام قصص ، حضور اکرم ﷺ کو تسلی کے لیے رسولوں پر اللہ کی رحمتوں اور مہربانیوں کے واقعات پیش کرتے ہیں۔ اس طرح کہ ان رسولوں پر اللہ نے کیا کیا کرم نوازیاں کیں ، بعض رسولوں کو اللہ نے حکومتیں اور بڑی بڑی سلطنتیں عطا کیں۔ اور ان پر بڑے بڑے انعامات کیے۔ یہ واقعات اس لیے بیان کیے کہ اہل قریش کو اس بات پر تعجب ہورہا تھا کہ حضرت محمد ﷺ کو منصب رسالت کیوں عطا کردیا گیا۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کوئی پہلے رسول نہ تھے۔ رسولوں کو تو بڑی بڑی مملکتیں عطا ہوئی ہیں۔ بعض کے لیے تو پہاڑ بھی مسخر کردیئے گئے اور پرندے ان کے ساتھ مل کر تسبیح پڑھتے تھے۔ بعض کے لئے ہوائیں مسخر تھیں اور جن اور شیطان بھی ان کے تابع تھے مثلاً داؤد وسلیمان علیہما السلام۔ آخر یہ کوئی تعجب کی بات ہے کہ محمد ابن عبداللہ کو آخر الزمان کے منصب کے لیے منتخب کردیا گیا۔
ان قصص میں یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ اپنے رسولوں کی نگرانی ہر وقت کرتا رہتا ہے۔ ان کی زندگی کے ہر موڑ پر ہر وقت ہدایات دی جاتی ہیں ' ان کو تجربات کرائے جاتے ہیں۔ وہ بھی بشر تھے جس طرح حضرت محمد ﷺ بشر ہیں۔ ان رسولوں میں بشری کمزوریاں بھی تھیں۔ چناچہ اللہ ہر وقت نگرانی کرکے ان کو بزری کمزوریوں سے بچاتا تھا۔ اللہ ہر وقت ان کو صحیح موقف بتاتا ہے۔ ان کی راہنمائی کرتا ہے اور ان کو آزماتا ہے تاکہ ان کی لغزشوں پر مغفرت کردے۔ یہ باتیں بتانے سے حضور اکرم ﷺ کے دل کو تسلی دینا مقصود ہے کہ آپ اپنے رب کی نگرانی میں کام کررہے ہیں اور قدم قدم پر اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی نگرانی اور حمایت کررہا ہے۔ آیت نمبر 17 تا 20
اصبرصبر کرو یہ تمام رسولوں کی زندگی کا اہم خاصہ ہے۔ وہ خاصہ جس کے کی بناء پر یہ سب لوگ ایک ہی گروہ قرار پاتے ہیں۔ سب اسی راہ پر چلے ، سب نے تکالیف برداشت کیں ۔ سب پر آزمائشیں آئیں اور سب نے ان پر صبر کیا۔ صبر سب کا زادہ تھا۔ انبیائی سلسلہ کے اندر سب نے درجہ بدرجہ مشکلات برداشت کیں۔ ان کی زندگی تجربہ تھی اور تجربہ مشقوں اور ابتلاؤں سے بھرا ہوا تھا۔ مصائب پر وہ صبر کرتے تھے اور ان کے لئے آزمائش تھی اور پھر اللہ کے فضل و کرم پر بھی وہ صبر کرتے تھے اور یہ بھی ابتلا تھی۔ دونوں حالات میں صبر حالات میں صبر ضروری ہوتا ہے اور انہوں نے صبر کیا۔
جس طرح قرآن نے رسولوں کی زندگی کی حکایات بیان کی ہیں اگر ہم ان سب کو پیش نظر رکھیں تو ان کی زندگی کی بنیاد اور ان کی زندگی کا اہم فیچر ہی صبر ہے۔ ان کی پوری زندگی عبارت ہے آزمائشوں ' مشقوں اور جدوجہد اور صبرو مصابرت سے۔
انبیاء کی زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آزمائشوں پر مشتمل ایک برگزیدہ زندگی ہے۔ فی الواقع یہ ایک پر مشقت زندگی ہے۔ یہ ایک کھلی کتاب ہے ' جس کے اندر صرف ابتلاؤں اور صبر کے نغمے لکھے ہوئے ہیں۔ اور انسانیت کے لئے نچور نمونہ پیش کیے گئے ہیں تاکہ تاریخ کے اندر اس بات کو ریکارڈ کردیا جائے کہ روح انسان کس طرح مصائب اور زندگی کی ضروریات اور سہولیات کی خواہش پر غالب ہوجاتی ہے۔ اور انسانی روح کس طرح ان تمام اقدار سے برتر ہوجاتی ہیں جن پر دنیا فخر کرتی ہے اور کس طرح انسانی روح دنیا کی دھوکہ دینے والی چیزوں اور نفس کو مرغوب چیزوں سے لاتعلق ہوجاتی ہے۔ صرف اللہ کے لیے ہوجاتی ہے اور یوں آزمائشوں میں فلاح پالیتی ہے۔ وہ اللہ کو تمام ماسوا اللہ پر ترجیح دے دیتی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر ہی پھر وہ انسانیت کو چیلنج کرکے کہہ سکتی ہے کہ یہ ہے طریق زندگی ۔ یہ ہے سربلندی کی راہ۔ اور یہ ہے وہ راہ جو نہایت ہی بلندیوں پر اللہ کی طرف جاتی ہے۔
اصبر علیٰ مایقولون (38: 17) ” یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان پر صبر کرو “۔ اور وہ کیا باتیں کرتے تھے ؟
اجعل الاٰلھة الٰھا واحدا (38: 5) ” کیا اس نے تمام الہوں کی جگہ ایک خدا ٹھہرایا ہے “۔ اور وہ یہ کہتے تھے۔
ء انزل علیه الذکر (38: 8) ” کیا خدا کے کلام کے لیے ہمارے درمیان میں سے صرف اسی کا انتخاب ہونا تھا “ وغیرہ۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو متوجہ فرماتا ہے کہ بس آپ صبر کرتے چلے جائیں۔ اور نبی ﷺ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ ان کفار کے ماڈلوں کے مقابلے میں کچھ دوسرے ماڈلوں میں زندہ رہیں۔ پر خلوص اور شریف النفس ماڈلوں کے ساتھ۔ یہ ماڈل آپ کے بھائی انبیائے سابقہ کے ماڈل ہیں۔ آپ کے سامنے ان کے نمونے پیش کئے جاتے ہیں تاکہ آپ ان کے ساتھ قریبی تعلق کا احساس کریں کہ یہ آپ کے بھائی ، آپ کے نسبی اور رشتہ دار۔ چناچہ حضور ﷺ فرماتے ہیں۔ اللہ میرے فلاں بھائی پر رحم کرے۔۔۔ اور میں اس نبی کا زیادہ قریبی ہوں۔
اصبرعلیٰ ۔۔۔۔ اواب (38: 17) ” اے نبی صبر کرو ، ان باتوں پر جو یہ لوگ بناتے ہیں اور ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کرو ، جو بڑی قوتوں کا مالک تھا اور ہر معاملے میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا “۔ داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت قوتوں والے تھے لیکن ہر معاملے میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ اس قوم نوح ، قوم عاد اور فرعون ، قوم ثمود ، قوم لوط اور اصحاب ایکہ کا ذکر ہوا تھا۔ یہ سب اقوام نہایت ہی سرکش تھیں۔ وہ اپنی قوت کا اظہار یوں کیا کرتی تھیں کہ وہ لوگوں پر ظلم کرتی تھیں ' زیادتی کرتی تھیں اور حق کی تکذیب کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں داؤد (علیہ السلام) بھی بڑی قوتوں والے تھے ۔ لیکن وہ اواب تھے۔ ہر معاملے میں اللہ کیطرف رجوع کرتے تھے۔ اللہ کے مطیع ' عبادت گزار اور اسے یاد کرنے والے۔ حالانکہ وہ قوتوں والے اور مقتدر اعلیٰ تھے۔
حضرت داؤد کے قصے کا ابتدائی حصہ اور طالوت کے لشکر میں انکی نمایاں کارکردگی بیان ہوچکی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی بعد بنی اسرائیل کا یہ لشکر طالوت کی قیادت میں اٹھا تھا۔ اس روز میں بنی اسرائیل زوال پذیر تھے اور انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہمارے لیے اللہ کیطرف سے بادشاہ اور قائد ریاست مقرر ہو ۔ یہ لشکر بنی اسرائیل کے جبار دشمن جالوت سے ٹکرایا۔ داؤد نے جالوت کو قتل کردیا۔ اس دور میں حضرت داؤد نوجوان تھے۔ یوں انکا ستارہ چمکا اور بالاخر وہ بادشاہ بن گئے ۔ لیکن ان کا رویہ یہ تھا کہ وہ ہر معاملے میں اللہ کیطرف رجوع کرنے والے تھے۔ اطاعت شعار اور عبادت گزار تھے اور ہر وقت ذکر و استغفار میں لگے رہتے تھے۔
اس اقتدار وسلطنت کے ساتھ اللہ نے ان کو نبوت بھی عطا کی اور نہایت ہی خوبصورت آواز ان کو دی گئی تھی۔ یہ نہایت
ہی خوش الحانی کے ساتھ اللہ کی ثنا کرتے تھے ۔ یہ ذکر میں اس قدر مستغرق تھے اور حمد وثنا کو اس قدر ترسیل سے پڑھتے تھے کہ ان کے اور اس کائنات کے درمیان کے تمام پردے اٹھ گئے تھے۔ یوں ان کے ساتھ پرندے ، اور پہاڑ بھی ثنا پڑھتے تھے اور اللہ کی تعریف وتمجید کرتے تھے ۔ پہاڑ ان کے ساتھ گنگناتے تھے اور پرندے ان کے اردگرد پھڑ پھڑاتے تھے۔ اور سب کے سب مولائے کریم کے ثنا خواں تھے۔
0%