دین میں صبر کی بے حد اہمیت ہے۔ مگر انسان کی اذیتوں پر صبر وہی شخص کرسکتا ہے جو انسان کے معاملہ کو خدا کے خانہ میں ڈال سکے۔ جو شخص خدا کی حمد وتسبیح میں ڈوبا ہوا ہو اسی کےلیے یہ ممکن ہے کہ وہ انسان کی طرف سے کہی جانے والی ناخوش گوار باتوں کو نظر انداز کردے۔
حضرت داؤد اس صفت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت اور سلطنت دی تھی۔ مگر ان کا حال یہ تھا کہ وہ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ وہ کائنات میں بلند ہونے والی خدائی تسبیحات میں گم رہتے تھے۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بیٹھ کر اتنے وجد کے ساتھ حمد خداوندی کا نغمہ چھیڑتے کہ پورا ماحول ان کا ہم آواز ہو جاتا تھا۔ درخت اور پہاڑ بھی ان کے ساتھ تسبیح خوانی میں شامل ہوجاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو جو حکومت دی تھی وہ نہایت مستحکم حکومت تھی۔ اس استحکام کا راز تھا حکمت اور فصلِ خطاب۔ حکمت سے مراد یہ ہے کہ وہ معاملات میں ہمیشہ حکیمانہ اور دانش مندانہ انداز اختیار کرتے تھے۔ اور فصلِ خطاب کا مطلب یہ ہے کہ وہ بروقت صحیح فیصلہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی دونوں چیزیں ہیں جو کسی حکمراں کو صالح حکمراں بناتی ہیں۔ اس کے اندر حکمت ہونا اس بات کا ضامن ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو فائدے سے زیادہ نقصان کا سبب بن جائے۔ اور فصل خطاب اس کا ضامن ہے کہ اس کا فیصلہ ہمیشہ منصفانہ فیصلہ ہوگا۔
0%