درس نمبر 211 تشریح آیات
﷽
آیت نمبر 1 تا 3
اللہ تعالیٰ حرف ص اور قرآن کریم کی قسم کھاتا ہے۔ اس قرآن کی قسم جو نصیحت سے مالا مال ہے ۔ یہ حرف ص بھی اللہ کا بنایا ہوا ہے اور یہ قرآن بھی اللہ کا کلام ہے ۔ اور یہ اللہ ہی ہے جو انسان کے گلے میں حرف صاد پیدا کرتا ہے اور پھر یہ حرف اور اللہ کے پیدا کردہ دوسرے حروف تہجی مل کر قرآن کے اسالیب کلام پیدا کرتے ہیں ۔ لیکن تمام انسان ایسا کلام پیش کرتے سے عاجز ہیں ۔ کیونکہ قرآن کلام الہی ہے اور اس کے اندر وہ ادبی صنعت کاری ہے جو انسان کے دائرہ قدرت سے باہر ہے اور اللہ کا یہ اعجاز کلام الہی قرآن میں بھی ہے اور دوسری پیدا کردہ چیزوں میں بھی ہے۔ یہ آواز ص جو انسان کے گلے سے نکلتی ہے ' یہ اس اللہ کی تخلیق سے نکلتی ہے۔ جس نے انسان کا گلا بنایا ' جس سے اس کے سوا دوسری آوازیں بھی نکلتی ہیں انسانوں کی قدرت میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ آواز نکالنے کا کوئی ایسا چلتا پھرتا زندہ آلہ بنالیں اور یہ بھی ایک خارق العادت معجزہ ہے اور اس قسم کے ہزارہا معجزات خود ان کے جسم میں ہیں۔ اگر یہ لوگ صرف اپنے انفس کے اندر پائے جانے والے معجزات ہی پر غور کرتے تو انہیں اس بات پر کوئی اچنبھا نہ ہوتا کہ اللہ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے پر وحی نازل کی ہے اور ایک بندے کو مختار بنایا ہے کیونکہ وحی کے اندر اچنبھے کی کوئی ایسی بات نہیں ہے جس طرح اللہ کے پیدا کردہ انسان اور دوسری چیزوں کے اندر ایک ایک بات معجزہ ہے۔
ص والقراٰن ذی الذکر (38: 1) ” ص ' قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی “۔ قرآن کریم میں جس طرح قوانین ' دستور ' قصص ' فلسفہ اور تہذیب کی باتیں ہیں اسی طرح نصیحت اور یاد دہانی بھی ہے۔ لیکن نصیحت اور اللہ کی طرف راہنمائی سب دوسرے مضامین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ قرآن کی اصل غرض نصیحت وہدایت ہے بلکہ نصیحت کے سوا دوسرے مضامین بھی دراصل اللہ تک پہنچانے والے ہیں۔ یوں کہ سب اللہ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ذوالذکر کا مفہوم مذکور اور مشہور بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی قرآن کی صفت ہے کہ وہ بہت مشہور ہے۔
0%