آیت 98{ فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَسْفَلِیْنَ } ”تو اس طرح انہوں نے اس کے ساتھ ایک دائو آزمایا ‘ لیکن ہم نے ان کو ہی نیچا دکھادیا۔“ انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کے خلاف کون سا دائو آزمایا تھا ‘ اس کی وضاحت قبل ازیں سورة الانبیاء کی آیت 70 کی تشریح کے ضمن میں ہوچکی ہے۔ دراصل وہ لوگ آپ علیہ السلام کو آگ میں جلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ محض ڈرانا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب آپ علیہ السلام دیکھیں گے کہ ان کے لیے آگ کا اتنا بڑا الائو دہکایا جا رہا ہے تو سارا نشہ ہرن ہوجائے گا ‘ اور پھر جب انہیں آگ کے دہانے پر لاکر کھڑا کیا جائے گا تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے اور آپ علیہ السلام تائب ہو کر اپنے عقائد سے رجوع کرلیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ ”فتنہ“ دب جائے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ بالکل ہی الٹ ہوگیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو الائو کے دہانے پر لایا گیا تو بقول اقبالؔ: ؎بے خطر کود پڑا آتش ِنمرود میں عشق عقل ہے محو ِتماشائے لب ِبام ابھی ! بہر حال جب ابراہیم علیہ السلام نے بھرپور استقامت کا مظاہرہ کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے لیے آگ کو گل و گلزار بنا دیا۔ اس طرح وہ لوگ اپنے ارادوں اور منصوبوں سمیت خائب و خاسر ہوگئے۔