درس نمبر 209 تشریح آیات
69 ۔۔۔ تا۔۔۔ 148
اس سبق میں سیاق کلام عالم آخرت ، اللہ کی نعمتوں اور قیامت میں اللہ کی سزاؤں سے نکل کر اب انسانی تاریخ اور امم ماضیہ کے حالات میں داخل ہوتا ہے۔ انسانیت کے آغاز سے قصہ ہدایت و ضلالت کو لیا جاتا ہے۔ یہ قصہ تمام اقوام کے ہاں ایک ہی ہے اور نظر آتا ہے کہ مکہ کے منکرین جو حضرت محمد ﷺ کی دعوت کی تکذیب کرتے ہیں۔ وہ سابقہ مکذبین کے بقایا اور نمونہ ہیں۔ ان کو بتایا جاتا ہے کہ تم سے پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے۔ یوں ان کے دلوں کے سامنے انسانی تاریخ کے قدیم ترین صفحات رکھے جاتے ہیں ان قصص میں اہل ایمان کیلئے بھی اطمینان کا سامان ہے کہ پوری انسانی تاریخ شاہد ہے کہ اللہ نے ہمیشہ اہل ایمان کا خیال رکھا ہے
چناچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصے ، کا ایک رخ حضرت ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ، موسیٰ ، ہارون ، الیاس ، لوط اور یونس (علیہما السلام) کے قصص کے بعض حصے قارئین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کے حالات ذرا طوالت کے ساتھ لئے گئے ہیں ، جن میں عظمت ایمان ، قربانی ، اطاعت اور ابراہیم اور اسماعیل (علیہم السلام) کے ذہنوں میں اسلام کا جو تصور تھا ، وہ یہاں بیان کیا جاتا ہے اور اس میں ان کے قصے کا ایک ایسا حلقہ دیا جاتا ہے جو اس سورت کے سوا کسی دوسری سورت میں نہیں دیا گیا۔ اس سبق کا بنیادی مواد انہی قصص پر مشتمل ہے۔
انھم الفوا اباءھم۔۔۔۔۔۔ عباد اللہ المخلصین (69 – 74) ۔ “۔
یہ لوگ ضلالت اور گمراہی میں غرق ہوچکے ہیں۔ یوں کہ وہ ہر بات میں آباء و اجداد کی تقلید کرتے ہیں۔ کسی پیش آمدہ معاملے پر غور و فکر نہیں کرتے۔ بلکہ یہ جلد بازوں کی طرح اڑتے اور دوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ آباء و اجداد کے قدموں پر قدم رکھتے چلے جا رہے ہیں ، بغیر سوچے اور بغیر عقل سے کام لیتے ہوئے اور وہ چونکہ گمراہ تھے لہٰذا یہ بھی گمراہ ہیں۔ انھم الفوا ۔۔۔۔۔ یھرعون (37: 69 – 70) ” یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے باپ دادا کو گمراہ پایا اور انہی کے نقش قدم پر دوڑتے چلے گئے “۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اور ان کے آباء و اجداد اسی گمراہی پر تھے جس میں اکثر مکذبین مبتلا تھے۔