ولقد سبقت کلمتنا۔۔۔۔ لھم الغلبون (171 – 173) ” “۔ یہ وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے اور اللہ کی بات اپنی جگہ قائم ہے۔ زمین کے اوپر توحیدی نطریہ حیات قائم ہے۔ ایمان کی عمارت مکمل ہوچکی ہے ۔ تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے علی الرغم توحید کا کلمہ بلند ہے۔ اگرچہ جھٹلانے والے جھٹلاتے ہیں۔ اگرچہ دنیا میں اسلام کی دعوت اور اسلام کے قیام کا علم بلند کرنے والوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں ۔ آج بھی کفار کے عقائد ، ان کا رعب دنیا سے ختم ہے۔ کفار ، مشرکین کا تمام نظریاتی زور ختم ہے۔ آج دنیا میں وہی عقائد و نظریات زندہ ہیں جو رسولوں نے پیش کیے۔ آج بھی رسولوں کا پیش کردہ عقیدہ توحید لوگوں کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے۔ لوگوں کے تصورات اور نطریات کو ایک خاص کیف دے رہا ہے اور تمام رکاوٹوں کے باوجود اس کرہ ارض پر انسانوں کے دل و دماغ پر واضح طور پر چھایا ہوا ہے ۔ اور تہ تمام نظریات ناکام ہوچکے ہیں جو رسولوں کے پیش کردہ نطریہ توحید کے مخالف تھے۔ یہ نظریات ان علاقوں میں بھی ختم ہوچکے ہیں جہاں سے وہ اٹھے تھے۔ (سو شلزم روس میں) اور اللہ کے رسولوں کا کلمہ آج بھی بلند ہے اور وہ اللہ کا لشکر نطریاتی اعتبار سے آج بھی غالب ہے۔
یہ تو ہم ایک عمومی بات کرتے ہیں لیکن ایک بات تمام روئے زمین پر بطور حقیقت پائی جاتی ہے اور وہ ہمیشہ ہر زمانے میں پائی گئی ہے اور ہر تحریک اور دعوت پر وہ اصول صادق آیا ہے کہ جب داعی مخلص ہوں ، سچے ہوں اور دعوت کے لیے یکسو ہوں تو وہ ہر حال میں غالب رہتے ہیں۔ اس کے راستے میں مشکلات اور رکاوٹوں کے پہاڑ کیوں نہ کھڑے کر دئیے جائیں۔ اللہ کا لشکر بہرحال غالب رہتا ہے مخلصین کو بیشک ، مختلف جنگیں لڑنی پڑتی ہیں چو مکھی لڑائی سے سابقہ پیش آتا ہے لیکن آخری نتیجہ وہی ہوتا ہے کہ اللہ کا لشکر غالب ہوتا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ اگر پوری دنیا کی قوتیں اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں ، یہ وعدہ پورا ہوکر رہے گا۔ مخلصین مومنین کو نصرت ملے گی۔ وہ غالب ہوں گے اور زمین پر ان کا اقتدار قائم ہوگا۔
اللہ کا یہ وعدہ کوئی جزوی واقعہ نہیں ہوگا بلکہ یہ اس کائنات کی سنتوں میں سے ایک سنت الہیہ ہے۔ اور اللہ کی سنت اس طرح حرکت میں رہتی ہے جس طرح یہ ستارے اور سیارے اپنے مدار میں متحرک ہوتے ہیں۔ ان کے مدار پر ان کی رفتار میں ایک لمحے کا فرق نہیں آتا۔ جس طرح رات اور دن کے ظہور میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ صدیوں سے یہ ظہور جاری ہے۔ جس طرح بہار و خزاں کے مظاہر آتے جاتے ہیں اور مردہ زمین کو زندہ کرتے رہتے ہیں اسی طرح سنت الہیہ بھی جاری وساری ہے۔ لیکن وہ اللہ کی تقدیر کی پابند ہے اور اللہ کے ارادے کے مطابق چلتی ہے۔ اور جس طرح اللہ چاہتا ہے ، اس کا ظہور ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اس کے ظہور میں دیر نطر آتی ہے اور یہ دیر عجلت پسند انسان کی تمناؤں کی وجہ سے آتی ہے۔ لیکن اس سنت میں تخلف نہیں ہوتا۔ بعض اوقات یہ سنت اس طرح اپنا کام کرتی ہے کہ انسان اسے سمجھ ہی نہیں سکتا۔ وہ ایسی شکل و صورت میں آتی ہے جو انسان کے تصور میں نہیں ہوتی۔ اور جب سنت الہیہ اپنا کام کرکے چلی جاتی ہے تو ایک عرصے کے بعد اہل ایمان کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں گوشے سے نصرت الہیہ نے کام کیا تھا۔
اللہ کے رسولوں کا اتباع کرنے والے لشکر خداوندی کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی امداد اس متعین صورت میں ہو جو اس کے ذہن میں ہے۔ لیکن اللہ کی مشیت یہ ہوتی ہے کہ یہ نصرت نہایت ہی اعلیٰ اور مکمل شکل میں ہو۔ چناچہ ہوتا وہی کچھ ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ اگرچہ یہ لشکر اپنے خیال میں بہت زیادہ مشقت اٹھا رہا ہو اور اس کے خیال میں جدوجہد پر بہت عرصہ گزر چکا ہو اور انتظار ان کے تصور سے زیادہ ہوگیا ہو۔ مثلاً مسلمانوں کا ارادہ یہ تھا کہ جنگ بدر کے موقعے پر قافلہ ان کے ہاتھ آجائے لیکن اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ یہ دنیاوی نفع ان کے ہاتھ سے جاتا رہے اور ان کی مڈبھیڑ فوج اور لشکر جرار سے ہوجائے اور وہ ایک ایسے گروہ سے ٹکرا جائیں جو زادوعتاد رکھتا ہو۔ اور اللہ نے جو چاہا وہ بہتر تھا۔ اسلام اور مسلمانوں دوں کے لیے بہتر تھا۔ یہ تھی اللہ کی نصرت لشکر الٰہی کے حق میں۔ اللہ پوری انسانی تاریخ میں اپنے لشکروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔
بعض اوقات اللہ کے لشکر کسی نہ کسی جنگ میں شکست بھی کھا جاتے ہیں اور جنگ کا رخ ان کے خلاف چلا جاتا ہے۔ انپر ابتلائیں اور مشکلات بھی آجاتی ہیں۔ کیونکہ اللہ کی منشا یہ ہوتی ہے کہ کسی دوسرے بڑے معرکے میں نصرت اور غلبہ دے۔ اور اللہ جانتا ہے کہ اس موقعے پر اس کے لشکر کے لیے فتح مفید نہیں ہے اور اگلے موقعے پر وہ فتح بہت وسیع ، بہت ہمہ گیر اور دور رس اثرات کی حامل ہوگی۔
اللہ نے اپنی بات کردی ہے ، اس کا وعدہ اور ارداہ کام کرچکا ہے اور اللہ کی سنت بارہا ثابت ہوچکی ہے۔
ولقد سبقت۔۔۔۔۔ لھم الغلبون (37: 171 – 173) ” اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کرچکے ہیں کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا “۔
اس فیصلہ کن وعدے کے بعد اور نہایت ہی دیرینہ دستاویز ہونے کے بعد اور اللہ کی طرف سے ہونے کے بعد اب رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ اب آپ مشرکین مکہ کو چھوڑ دیں۔ اب دیکھیں کہ اللہ کا یہ وعدہ کس طرح سچا ہوتا ہے اور سنت الہیہ کس طرح کام کرتی ہے۔ آپ بھی انتظار کریں اور وہ بھی انتظار کریں اور اللہ کے کاموں اور شانوں کا نظارہ کریں۔