يا حسرة على العباد ما ياتيهم من رسول الا كانوا به يستهزيون ٣٠
يَـٰحَسْرَةً عَلَى ٱلْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا۟ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ ٣٠
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس 206 ایک نظر میں

پہلے سبق میں بات ان لوگوں کے بارے میں تھی جنہوں نے دعوت اسلامی کا استقبال انکار اور تکذیب کے ساتھ کیا۔ اور اس کا انجام ان کے گاؤں کا قصہ بیان کرکے بتایا گیا کہ ان جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ ان کا انجام یہ ہوا کہ

فاذاھم خمدون (36: 29) ” اچانک وہ بجھ کر رہ گئے “۔ لیکن اس سبق میں تمام ملتوں اور تمام کتب سماوی کے مکذبین کا انجام بنایا گیا ہے۔ اور پوری انسانی تاریخ سے گمراہ انسانوں کے خدوخال اور نقوش یہاں بتائے گئے ہیں اور یہاں نہایت ہی دلدوز آواز و انداز میں پکارا جاتا ہے کہ تعجب ہے کہ لوگ ان اقوام کی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ جن کی سچائی کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔ یہ مکذبین وہ ہیں جو گمراہی کے راستے پر آگے ہی بڑھ رہے ہیں اور یوم الدین کا انہیں کوئی خیال نہیں ہے۔

وان کل لما جمیع لدینا محضرون (36: 32) ” ان سب کو ایک روز ہمارے سامنے حاضر کیا جاتا ہے “۔

اس کے بعد تکوینی دلائل اور معجزات اور نشانیوں کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ وہ نشانیاں ہیں جن کو یہ لوگ رات اور دن دیکھتے ہیں اور نہایت ہی لاپرواہی سے ان پر سے گزر جاتے ہیں۔ یہ خود ان کے نفوس کے اندر بھی موجود ہیں۔ ان کے ماحول میں بھی موجود ہیں۔ ان کی قدیم تاریخ میں بھی موجود ہیں لیکن ان کو اس کا شعور نہیں ہے اور جب ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو وہ یاد نہیں کرتے۔ سبق نہیں حاصل کرے۔

وما تاتیھم من ۔۔۔۔ عنھا معرضین (36: 46) ” ان کے سامنے ان کے رب کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے ، یہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے “۔ اس کے برعکس یہ لوگ اللہ کے عذاب کے بارے میں جلد آنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ مطالبہ وہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کو عذاب کے آنے کا کوئی یقین نہیں۔

ویقولون متی۔۔۔۔۔ صدقین (36: 48) ” کہتے ہیں کہ یہ قیامت کی دھمکی آخر کب پوری ہوگی ؟ بتاؤ اگر تم سچے ہو “۔ چونکہ یہ لوگ عذاب میں شتابی کا مطالبہ کرتے ہیں ، قیامت کے آنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور دل میں یہ ہے کہ ان کو ان امور کے واقع ہونے کا یقین نہیں ہے۔ اس لیے یہاں مناظر قیامت میں سے ایک طویل منظر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ منظر صاف صاف بتاتا ہے کہ انجام کیا ہوگا ، جس کے واقع ہونے کی ان کو بہت جلدی ہے۔ یہ منظر اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ گویا ان کا انجام واقع ہوگیا اور یہ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔

درس نمبر 206 تشریح آیات

30 ۔۔۔ تا۔۔۔ 68

یحسرۃ علی العباد۔۔۔۔۔ لدنیا محضرون (30 – 32) حسرت ایک ایسی نفسیاتی حالت ہے جس میں انسان کو بےحد افسوس ہوتا ہے لیکن وہ اس حالت کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پس وہ دیکھ دیکھ کر کڑھتا ہے اور اسے اذیت ہوتی ہے۔ اللہ کو تو بندوں کے ایمان نہ لانے پر کوئی حسرت نہیں ہوتی۔ مفہوم یہ ہے کہ انسان نقطہ نظر سے یہ لوگ قابل حسرت ہیں۔ وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی حالت پر افسوس کیا جائے۔ کیونکہ ان کا یہ حال نہایت ہی قابل تالیف ، پریشان کن اور قابل رحم ہے کہ یہ لوگ اپنی اس ضلالت کی وجہ سے دائمی شر اور دائمی مصیبت میں مبتلا ہونے والے ہیں۔

یقیناً وہ لوگ اس قابل ہیں کہ ان کی حالت پر افسوس کیا جائے جن کو نجات کا موقعہ ملتا ہے اور وہ اس سے استفادہ نہیں کرتے۔ ان کے سامنے انسانی تاریخ موجود ہے اور وہ اس تاریخ سے عبرت نہیں پکڑتے اور نہ ہی تاریخی واقعات پر غور کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس وقتاً فوقتاً اللہ ان کی ہدایت کے لیے رسولوں کو بھیجتا ہے لیکن یہ لوگ اللہ کی رحمت کے دروازوں سے دور ہوجاتے ہیں اور پھر اللہ کی شان میں گستاخی بھی کرتے ہیں۔

یحسرۃ علی ۔۔۔۔ یستھزءون (36: 30) ” جو رسول بھی ان کے پاس آیا اس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے “۔