افترى على الله كذبا ام به جنة بل الذين لا يومنون بالاخرة في العذاب والضلال البعيد ٨
أَفْتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِۦ جِنَّةٌۢ ۗ بَلِ ٱلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِٱلْـَٔاخِرَةِ فِى ٱلْعَذَابِ وَٱلضَّلَـٰلِ ٱلْبَعِيدِ ٨
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 8 { اَفْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا } ”کیا اس نے جھوٹ باندھا ہے اللہ پر“ کیا محمد ﷺ نے اتنی بڑی جسارت کی ہے کہ جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے ؟ کہنے کو تو وہ ایک دوسرے سے یوں کہتے تھے اور خود اپنے آپ سے بھی یہ سوال کرتے تھے لیکن اصل حقیقت کو وہ خوب سمجھتے تھے کہ آپ ﷺ کی طرف سے جھوٹ گھڑنے کا کوئی ہلکا سا بھی امکان نہیں تھا۔ اندر سے ان کے دل گواہی دیتے تھے کہ دیکھو ! اس شخص کی پچھلے چالیس برس کی زندگی تمہارے سامنے ہے۔ ان کی سیرت و کردار سے تم خوب واقف ہو۔ تم نے خود انہیں الصادق اور الامین کا خطاب دیا ہے۔ تو بھلا ایک ایسا شخص جس نے اپنی معمول کی زندگی میں کبھی کوئی چھوٹا سا بھی جھوٹ نہ بولا ہو ‘ آخر اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول سکتا ہے اور وہ بھی اللہ کے بارے میں ! { اَمْ بِہٖ جِنَّــۃٌ} ”یا اسے جنون ہوگیا ہے !“ کبھی کہتے ممکن ہے کہ ان پر آسیب کا سایہ آگیا ہو یا ان کا دماغی توازن خراب ہوگیا ہو ‘ اس لیے اس طرح کی باتیں کرنے لگے ہوں۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر ان کا اپنا کوئی قصور نہیں اور انہیں جھوٹ کا الزام نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اس الزام پر بھی ان کے ضمیر پکار اٹھتے کہ اس پر غور تو کرو ! کیا اس کلام میں تم لوگوں کو واقعی دیوانگی کے آثار نظر آتے ہیں ؟ چناچہ واقعتا انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ ماجرا آخر ہے کیا ؟ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ اگر بارہ سالہ مکی دور کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے تو مکی سورتوں کے درمیانی گروپس سورۃ الفرقان تا سورة السجدۃ اور سورة سبا تا سورة الاحقاف میں ‘ سورة الشعراء کو چھوڑ کر کہ وہ ابتدائی دور کی سورت ہے ‘ باقی تمام وہ سورتیں ہیں جو درمیانی چار سالوں میں نازل ہوئی ہیں اور ان سب سورتوں کے مطالعہ کے دوران کفارِ مکہ کی یہی کیفیت سامنے آتی ہے۔ یعنی اس دور میں وہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں سخت الجھن اور شش و پنج کا شکار تھے۔ کبھی وہ آپ ﷺ کو شاعر کہتے ‘ کبھی جادوگر اور کبھی مجنون قرار دیتے ‘ مگر آپ ﷺ کے بارے میں کوئی واضح اور حتمی موقف اپنانے سے قاصر تھے۔ البتہ آخری چار سالہ دور میں نازل ہونے والی پندرہ سورتوں یعنی سورة الانعام ‘ سورة الاعراف اور سورة یونس تا سورة المومنون اس گروپ میں بھی سورة الحجر ایک ایسی سورت ہے جو ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں ان کے اندر polarization ہوگئی تھی۔ یعنی مکی دور کے آخری سالوں میں حضور ﷺ کے بارے میں ان کے مختلف لوگ مختلف آراء رکھتے تھے۔ { بَلِ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ فِی الْْعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الْبَعِیْدِ } ”بلکہ وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ عذاب میں اور دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔“ دُنیا میں بھی ان کی جان ضیق تنگی میں آئی ہوئی ہے اور وہ بڑی دور کی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں آخرت کا یقین ہوتا تو یہ بات جو ان کی سمجھ میں نہیں آرہی ‘ بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی۔