You are reading a tafsir for the group of verses 34:31 to 34:33
3

وقال الذین کفروا۔۔۔۔۔ بین یدیہ ” “۔ یہ ہے وہ عناد جس میں مخالفین اسلام اول روز سے مبتلا تھے۔ انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ ہدایت کو مان کر نہ دیں گے اگرچہ اس کا منبع کتب سابقہ میں ہو۔ نہ قرآن کو مانیں گے اور نہ پہلی کسی کتاب کو۔ نہ اس کو نہ سابقہ کتب کو ۔ یہی فیصلہ مخالفین اسلام کا کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کفر پر اصرار کرتے ہیں ۔ پختہ فیصلہ انہوں نے کرلیا ہے کہ وہ کفر پر اصرار کریں گے اور دلائل ہدایت پر غور ہی نہ کریں گے۔ جب انہوں نے یہ فیصلہ کر ہی دیا ہے تو ان کا علاج یہی ہے کہ ان کے سامنے بس مناظر قیامت میں سے ایک منظر پیش کردیا جائے۔

ولو تری اذ ۔۔۔۔۔ الا ما کانوا یعملون (21 – 23)

یہ تو تھی ان کی دنیاوی بات ” ہم ہرگز قرآن کو نہ مانیں گے اور نہ اس سے پہلے آئی ہوئی کسی کتاب کو تسلیم کریں گے “۔ لیکن ان ظالموں کی ھالت قیامت کے دن دیکھنے کے قابل ہوگی جب یہ لوگ اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے اور بطور ملزم اللہ کی عدالت میں سزا کا انتظار کر رہے ہوں گے اور ان کو اس وقت یقین ہوگا کہ انہوں نے تو ہدایت کا انکار کیا تھا لہٰذا نتیجہ سامنے ہے۔ اب اور تو کچھ بس نہ چلے گا ایک دوسرے پر لعنت و ملامت کریں گے اور اس انجام کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالیں گے۔ یہ اس وقت کیا کہیں گے ؟

یقول الذین ۔۔۔۔۔ انتم لکنا مومنین (34: 31) ” جو لوگ دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے وہ بڑے بننے والوں سے کہیں گے ” اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے “۔ اس وقت وہ جس خوفناک صورت حالات سے دوچار ہیں یہ اس کی ذمہ داری اکابرین پر رکھیں گے۔ کیونکہ ان کو نظر آرہا ہے کہ مصیبت سر پر ہے۔ آج تو وہ ان کے منہ پر یہ حق بات کہہ رہے ہیں لیکن دنیا میں ان کو یہ حق بات کہنے کی توفیق نہ تھی۔ ان کو وقت ، کمزوری ، غلامی ، حق بات کہنے نہ دیتی تھی۔ انہوں نے اللہ کی بخشی ہوئی آزادی کو فروخت کردیا تھا۔ وہ عزت جو اللہ نے ہر انسان کو دی تھی اس سے وہ دستبردار ہوگئے تھے۔ وہ قوت مدرکہ جو ہر انسان کو دی گئی ، انہوں نے معطل کردی تھی۔ آج تو سب جھوٹی اور کھوٹی قدریں ختم ہیں۔ سامنے دردناک عذاب ہے۔ اب وہ یہ حق بات کہتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

لو لا انتم لکنا مومنین (34: 31) ” اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے “۔ اور یہ اکابرین بھی نہایت ہی تنگی اور ترشی سے جواب دیتے ہیں۔ خطرہ تو اب دونوں کے لیے برابر ہے۔ یہ اپنی ذمہ داری خواہ مخواہ ان پر ڈالتے ہیں۔ وہ بھی خوب جواب دیتے ہیں۔

قال الذین ۔۔۔۔۔۔ کنتم مجرمین (34: 32) ” اور ان بڑے بننے والوں نے جواب دیا ، کیا ہم نے تمہیں اس ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی تھی ؟ نہیں بلکہ تم خود مجرم تھے “۔ یوں وہ کسی ذمہ داری کے قبول کرنے کا صاف انکار کردیتے ہیں۔ اور یہ اقرار کرلیتے ہیں کہ ہدایت آئی تھی۔ یہ مستکبرین دنیا میں تو ضعفاء کو کوئی اہمیت ہی نہ دیتے تھے۔ نہ ان سے رائے طلب کرتے تھے ، بلکہ ان کا وجود ہی تسلیم نہ کرتے تھے اور یہ بات برداشت ہی نہ کرتے تھے کہ یہ ضعفاء ان کی مخالفت کریں یا مباحثہ کریں لیکن آج جبکہ عذاب کا سامنا ہے تو وہ صاف صاف انکار کرتے ہیں کہ۔

انحن صددنکم ۔۔۔۔۔ اذجآء کم (34: 32) ” کیا ہم نے تمہیں روکا تھا ، جب تمہارے پاس ہدایت آئی تھی “۔ بلکہ تم خود ہی مجرم تھے۔ تم نے مجرمانہ انداز اختیار کرلیا تھا۔

اگر دنیا ہوتی تو ان کمزور لوگوں کے ہونٹ سلے ہوئے ہوتے لیکن آخرت میں دنیا کے تمام جھوٹے پردے اٹھ جائیں گے۔ جھوٹی قدریں مٹ جائیں گی۔ آنکھیں کھل جائیں گی اور چھپے حقائق پردے سے باہر آجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں یہ کمزور لوگ بھی کھل کر بات کریں گے۔ بلکہ اب وہاں مستکبرین کے منہ میں منہ ڈال کر بات کریں گے اور کہیں گے کہ تم ہی اس سب صورت حالات کے ذمہ ہو۔ تم رات اور دن مکاری کرتے تھے اور ہمیں ہدایت سے روکتے تھے۔ تم نے باطل کو تھام رکھا تھا ، ہم پر مسلط کردیا تھا اور دعوت اسلامی کو ہم پر مشتبہ بنا دیا تھا۔ تم اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرکے ہمیں گمراہ کرتے تھے۔

وقال الذین استضعفوا ۔۔۔ ونجعل لہ اندادا (34: 33) وہ دبے ہوئے لوگ ان بڑے بننے والوں سے کہیں گے ، ” نہیں ، بلکہ شب و روز کی مکاری تھی جب تم ہم سے کہتے تھے کہ ہم اللہ سے کفر کریں اور دوسروں کو اس کا ہمسر ٹھہرائیں “۔

اب ان کو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مکالمہ اور مجادلہ نہ ان کے لیے مفید ہے اور ان کے لیے۔ نہ بڑے کی نجات ممکن ہے اور نہ چھوٹوں کی۔ ہر گروہ مجرم ہے ، البتہ بڑوں پر اپنی گواہی کی بھی ذمہ داری ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کی بھی ذمہ داری ہے۔ چھوٹوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ انہوں نے کیوں ان بڑے لوگوں کی اطاعت کی۔ یہ بات وہاں معانی کی وجہ نہیں بن سکتی کہ یہ ضعیف تھے۔ اللہ نے ان کو عقل اور آزادی دی تھی۔ انہوں نے عقل سے کام نہ لیا اور اپنی آزادی رائے کو فروخت کردیا۔ وہ طفیلی پن رہنے پر راضی ہوئے اور ذلت کی زندگی قبول کی۔ اس لیے وہ عذاب کے مستحق بن گئے۔ اس گفتگو کے دوران ہی ان پر سخت ندامت طاری ہوگئی اور یہ اسے چھپانے لگے۔ جب انہوں نے عذاب دیکھ لیا۔

واسروا الندامۃ لما راوا العذاب (34: 33) ” جب یہ عذاب دیکھیں گے تو پچھتائیں گے “۔ اور اپنی ندامت کو چھپانے کی کوشش کریں گے۔ یہ ایسی حالت ہوتی ہے کہ دل کی بات دل ہی میں رہ جاتی ہے۔ زبانیں بند ہوجاتی ہیں ، ہونٹ سل جاتے ہیں اور سخت عذاب انہیں آلیتا ہے۔

وجعلنا الاغلل ۔۔۔۔۔ الذین کفروا (34: 33) ” ہم ان منکرین کے گلوں میں طوق ڈال دیں گے “ اب یہ لوگ طوقوں میں بندھے ہوئے ہیں لیکن بات کا رخ ان سے پھرجاتا ہے اور عام بدکاروں سے کہا جاتا ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

ھل یجزون الا ما کانوا یعملون (34: 33) ” کیا لوگوں کو اس کے سوا اور کوئی بدلہ دیا جاسکتا ہے کہ جیسے اعمال ان کے تھے ، ویسی ہی جزا وہ پائیں۔ اب بڑے بننے والے اور چھوٹے بننے والے دونوں قسم کے ظالموں کے اس منظر پر پردہ گرتا ہے۔ دونوں ظالم ہیں۔ یہ اس لیے ظالم ہیں کہ سرکش تھے اور باغی تھے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے تھے۔ وہ اس لیے ظالم تھے کہ انہوں نے انسانی شرافت اور آزادی کے مقام کو ترک کردیا اور اپنے جیسے انسانوں کے غلام بن گئے۔ ان کے سامنے ذلت اختیار کی۔ اب دونوں کے لیے دائمی عذاب ہے۔

پردہ گرتا ہے اور ظالم اپنا منظر اچھی طرح دیکھ چکے ، زندہ مشکل ہیں۔ انہوں نے اپنی ہر حالت دیکھ لی اور وہ اس زمین پر زندہ ہیں۔ دوسروں نے بھی اس منظر کو دیکھ لیا۔ سب کے سامنے ابھی مہلت کی گھڑیاں ہیں۔ کبراء قریش جو باتیں کرتے ہیں ایسی ہی باتیں اقوام رفتہ کے مستکبرین بھی کرتے چلے آئے ہیں۔