You are reading a tafsir for the group of verses 34:28 to 34:30
3

درس نمبر 197 ایک نظر میں

اس سبق میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اوپر نازل ہونے والی کتاب کے بارے میں مشرکین کا موقف بیان کیا گیا ہے۔ یہ ہر رسول کے مقابلے میں اختیار کیا جانے والا کھاتے پیتے لوگوں کا موقف ہے۔ اس قسم کے لوگ اپنے مال اور اولاد اور اپنے معاشرتی مقام کی وجہ سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ ان کے پیش نظر صرف اس دنیا کے مفادات ہوتے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ دنیا کے مفادات حاصل کرنے میں دوسروں سے آگے ہیں اس لیے کہ مختار اور افضل لوگ ہیں۔ اور یہ کہ اس دنیاوی دولت کی وجہ سے وہ دنیا و آخرت دونوں کے عذاب سے بچ جائیں گے۔ چناچہ یہاں ان کے سامنے وہ منظر پیش کیا جاتا ہے جو آخرت میں ان کا ہوگا۔ یہ منظر ایسا ہے کہ گویا واقعہ ہوچکا ہے تاکہ وہ دیکھ لیں کہ جن چیزوں نے ان کو مغرور کردیا ہے ، وہ تو قیامت میں کچھ فائدہ دینے والی نہیں ہیں۔ اس منظر میں یہ بات بھی دکھائی گئی ہے کہ دنیا میں جن فرشتوں اور جنوں کی بندگی کرتے تھے وہ تو قیامت کے دن ان کے لیے ذرہ بھر مفید نہیں ہیں۔ اس منظر کے مکالموں کے درمیان یہ بات بتائی گئی ہے کہ اللہ کے ترازو میں کون سی چیز وزن رکھتی ہے۔ اسی طرح ان کھوٹی قدروں کی تردید خود بخود ہوجاتی ہے۔ جن کو وہ اس دنیا میں سینوں سے لگائے ہوئے ہیں۔ ثابت یہ ہوتا ہے کہ رزق کا کشادہ ہونا یا محدود ہونا مشیت الہیہ پر موقوف ہے اور یہ اللہ کے غضب یا رضا مندی کی دلیل نہیں ہے۔ یہ ایک قسم کی آزمائش ہوتی ہے۔

درس نمبر 197 تشریح آیات

28 ۔۔۔ تا۔۔۔ 42

وما ارسلنک الا ۔۔۔۔۔۔ ولا تستقدمون (28 – 30) ” ۔ “

گذشتہ سبق میں یہ بات طے کی گئی تھی کہ ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار ہے اور اہل حق اور اہل باطل کے درمیان مکالمہ ضرور ہونا چاہئے۔ اہل حق کو چاہئے کہ اپنی بات کھول کر رکھ دیں نہایت حکمت کے ساتھ ، پھر معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ وہاں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ نبی کا منصب و مقام اور فریضہ کیا ہے۔ یہ لوگ منصب نبوت سے جاہل ہیں۔ آخرت کی جس جزاء و سزا کا نبی ذکر کرتے ہیں اپنی اس جہالت کی وجہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قیامت برپا کیوں نہیں ہوجاتی تو جواب یہ دیا جاتا ہے کہ قیامت کے برپا ہونے کے لیے ایک وقت مقرر ہے ، اس سے وہ نہ پہلے آسکتی ہے اور نہ بعد میں۔

وما ارسلنک ۔۔۔۔۔۔۔۔ ونذیرا (34: 28) ” اے نبی ﷺ ہم نے تم کو تمام انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے “۔ یہ رسالت کے منصب کے عام فرائض ہیں کہ آپ کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے اور تمام انسانوں کے لئے بھیجا گیا ہے۔ نبی کا فرض پورا ہوجاتا ہے جب وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لوگوں کو جنت کی خوشخبری دے دے اور دوزخ کے عذاب سے ڈرا دے۔

ولکن اکثر الناس ۔۔۔۔۔۔۔ کنتم صدقین (34: 28 – 29) ” لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ یہ لوگ تم سے کہتے ہیں کہ وہ ڈراوا کب آئے گا اگر تم سچے ہو “۔ ان کے اس سوال ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کسی رسول کے فرائض منصبی سے واقف نہیں ہیں۔ آخر رسول کا یہ فرض نہیں ہوتا کہ وہ انجام برپا کر دے۔ رسول کا فریضہ صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو خبردار کر دے۔ رسول کی ڈیوٹی محدود ہوتی ہے۔ حضرت محمد ﷺ اپنا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اور اپنے فرائض سے رسول اللہ ﷺ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتے۔ اصل اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہی بھیجنے والا ہے ، وہی کام کی حدود مقرر کرنے والا ہے۔ اللہ کے رسول کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ قیامت برپا کردیں یا اس کا وقت بتا دیں۔ یہ رب تعالیٰ کا کام ہے۔ رسول اپنے حدود کار سے باخبر ہیں لہٰذا وہ اللہ سے کوئی ایسا سوال نہیں کرتے جو ان کی ڈیوٹی کی حدود سے باہر ہو۔ اور اس کے بارے میں کوئی ذمہ داری ان پر ڈالی نہ گئی ہو۔ حکم دیا جاتا ہے کہ ان کو ایک اصولی بات بتا دی جائے۔

قل لکم میعاد ۔۔۔۔۔۔ ولا تستقدمون (34: 30) ” کہو ، تمہارے لیے ایک دن کی میعاد مقرر ہے جس کے آنے میں نہ ایک گھڑی کی تاخیر تم کرسکتے ہو اور نہ گھڑی بھر پہلے اسے لا سکتے ہو “۔ ہر میعاد اپنے مقررہ وقت پر آتی ہے ، جو اللہ نے مقرر کیا ہے ، اس میں تقدیم و تاخیر ممکن نہیں ہے۔ نہ کسی کی خواہش پر اللہ اس طرح کرتا ہے۔ دنیا میں کوئی کام نہ عبث ہوتا ہے ، نہ اتفاقاً واقعہ ہوجاتا ہے ۔ ہر واقعہ اللہ کا تخلیق کردہ اور تقدیر کے مطابق ہوتا ہے۔ ہر معاملے کا تعلق آخرت سے ہے۔ اللہ کی تقدیر ان واقعات کو اپنی حکمت کے مطابق روبعمل لاتی ہے اور حکمت الٰہی سے انسان اسی قدر خبردار ہوتا ہے جس قدر اللہ انسان کو سمجھاتا ہے۔ ورنہ اللہ کی حکمت کا بیشتر حصہ مستور ہوتا ہے۔

اللہ کے وعدے اور اللہ کی سزا کے معاملے میں جلدی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا مطالبہ کرنے والا انسان اس اصول اور حکمت ربانی کے نظام سے واقف نہیں ہے اور علم نہیں رکھتا۔ اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں اور اپنی لا علمی کی وجہ سے جلد بازی سے کام لیتے ہیں۔