3

قل ارونی ۔۔۔۔۔ العزیز الحکیم (27) ” “۔

یہ نہایت ہی تہدید آمیز اور حقارت آمیز سوال ہے۔ ذرا دکھاؤ تو سہی وہ کون لوگ ہیں جن کو تم نے اللہ کے ساتھ الوہیت میں ملحق کردیا ہے۔ یہ لوگ کون ہیں ؟ ان کی کیا حیثیت ہے۔ کس درجے کے لوگ ہیں یہ ! اور پھر اس مقام کے لیے ان کا استحقاق کیا ہے۔ اس کے بعد لفظ کا۔۔۔ ان کی سرزنش کی جاتی ہے۔ کہاں سے یہ لائیں گے جبکہ اللہ کا کوئی شریک ہی نہیں ہے۔

بل ھو اللہ العزیز الحکیم (34: 27) ” زبردست اور دانا تو بس اللہ ہی ہے “۔ جس ذات کی صفات یہ ہوں اس کا کوئی شریک کیسے ہو سکتا ہے اور ضرورت بھی کیا ہے ، لہٰذا اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس پر یہ سبق ختم ہوتا ہے۔ اس کے آخر میں نہایت ہی دو ٹوک اور سبق آمیز تبصرے ہیں۔ اس عظیم کائنات کو پیش نظر رکھتے ہوئے۔ ایسے حالات میں جبکہ قیامت میں شفاعت کا مرحلہ ہوگا۔ حق و باطل کی کشمکش کے حوالے سے اور نفس انسانی کے اندر غوروفکر اور سوچ و بچار کے حوالے سے۔