3

قل یجمع بیننا ۔۔۔۔۔ العلیم (26)

پہلے سبق میں اللہ اہل حق اور اہل باطل کے درمیان مشترکہ فیصلہ دیا گیا کہ دونوں میں سے ایک ہی حق پر ہے ، اور ایک باطل پر ہے۔ اور حق اور باطل کا آمنا سامنا ہوا تھا تاکہ اہل حق ، حق کی طرف آئیں ، داعی اپنی دعوت پیش کریں اور حق و باطل باہم کشمکش کریں۔ دلائل کے سامنے شبہات لائے جائیں اور باطل حق کو بچھاڑنے کی کوشش کرے۔ لیکن یہ صورت ایک مختصر وقت کے لئے ہوتی ہے۔ اس کے بعد فریقین کے درمیان فیصلہ ہوجاتا ہے۔ یہ فیصلہ دو ٹوک ہے اور فیصلہ کرنے والا بہت بڑا حاکم ہے اور علیم بھی ہے۔ وہ علم اور معرفت پر فیصلہ کرتا ہے۔

اللہ کو فتاح علیم کہہ کر یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے فیصلے پر اعتماد کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ ایسا حاکم ہے جو حق و باطل کے درمیان علم کے مطابق فیصلہ کرنے والا ہے۔ وہ حق و باطل کو نکھار کر رکھ دیتا ہے اور ان کے درمیان التباس رہنے نہیں دیتا۔ حق پرستوں اور باطل پرستوں کو اکٹھا اور ملا جلا نہیں چھوڑا جاتا بشرطیکہ حق اپنی دعوت زوردار انداز سے پیش کرے ، قوت اس راہ میں لگا دے۔ پورے تجربات سے کام لے اور پوری قوت لگا کر معاملے کو اللہ کے سپرد کر دے تاکہ اللہ فتاح علیم فیصلہ کرے۔

یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ حق و باطل کے درمیان فیصلہ کس وقت کرتا ہے اس فیصلہ کے لیے وقت کا تعین بھی اللہ کرتا ہے ۔ نہ اس میں جلدی کا کوئی داعیہ ہے کیونکہ یہ اللہ ہی ہے جو حق و باطل کا آمنا سامنا کراتا ہے ، کمشکش کراتا ہے اور پھر فیصلہ کراتا ہے۔ وہی قناح علیم ہے۔

اب آخری ضرب ، یہ آخری ضرب پہلی ضرب کے مشابہ ہے۔ اس میں اللہ کے نام نہاد شرکاء کو چیلنج دیا جاتا ہے۔