قل ادعوا الذين زعمتم من دون الله لا يملكون مثقال ذرة في السماوات ولا في الارض وما لهم فيهما من شرك وما له منهم من ظهير ٢٢
قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍۢ وَمَا لَهُۥ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍۢ ٢٢
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

درس نمبر 192 ایک نظر میں

یہ ایک مختصر سبق ہے جس کا موضوع توحید اور شرک ہے ، لیکن اس سبق میں انسان کے عقل و خرد کو پوری کائنات کی سیر کرالی جاتی ہے۔ ظاہری کائنات ہو یا مخفی ہو ، حاضرہویا غائب ہو ، زمین سے ہو یا افلاک سے ہو ، دنیا سے متعلق ہو یا آخرت سے ۔ اس سفر میں انسان پر اس قدر خوف طاری کردیا جاتا ہے کہ اس کا وجود کا نپنے لگتا ہے اور اللہ کا جلال اس پر اس قدر طاری ہوتا ہے کہ انسان مدہوش ہوجاتا ہے ۔ انسان کے سامنے اس کا نسب ، اس کا رزق اور جزاد سزا کے مناظر رکھے جاتے ہیں ۔ اس سبق میں نہایت ہی زور دار الفاظ میں لفظ قل قل قل کے ساتھ انسان کو جھنجھوڑا جاتا ہے ۔ ہر فقرے میں ایک لاجواب دلیل سامنے لائی جاتی ہے ۔ نہایت ہی قوی دلیل ۔

درس نمبر 196 تشریح آیات

22 ۔۔۔ تا۔۔۔ 27

قل ادعوا الذین ۔۔۔۔۔ منھم من ظھیر (22)

“۔ آسمانوں اور زمین کے وسیع میدان میں یہ چیلنج ہے ۔

قل ادعوا الذین من دون اللہ (34: 22) ” کہو کہ پکار دیکھو اپنے معبود وں کو جن جو تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھے بیٹھے ہو “۔ ان کو بلاؤ ، وہ آئیں ۔ ذرا ظاہرتو ہوں میدان میں ، دہ خود دعویٰ کریں یا تم ان کی جانب سے دعویٰ کرو کہ زمین و آسمانوں کی بادشاہت میں ان کے اختیارات کیا ہیں ؟ کچھ نہیں ۔

لا یملکون ۔۔۔۔۔۔ فی الارض (34: 22) ” وہ نہ آسمانوں میں کسی ذرے کے برابر چیز کے مالک ہیں اور نہ زمین میں “۔ ظاہر ہے کہ وہ اور نہ ان کی جانب سے کوئی اور اس زغم کا دعویٰ کرسکتا ہے کیونکہ مالک تو وہ ہوتا ہے جو کسی چیز میں متصرف ہوتا اور اس میں وہ متصرف نہیں ہیں ۔ لہٰذا یہ معبود کسی چیز کے مالک نہیں ہیں کیونکہ اس وسیع کائنات میں ان کا کوئی تصرف نہیں ہے ۔

وما لھم فیھما من شرک (34: 22) ” آسمان اور زمین کی ملکیت میں وہ شریک ہی نہیں “ ۔ یعنی نہ تو وہ واحد مالک ہیں اور نہ وہ شریک مالک ہیں۔

وما لہ منھم من ظھیر (34: 22) ” ان میں سے کوئی اللہ کا مددرگار بھی نہیں ہے “۔

تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ رضا کارانہ طور پر اللہ کے مددگار ہوں ، یہ بھی نہیں ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اشارہ مخصوص قسم کے معبودوں اور مخصوص قسم کے شرک کی طرف ہے۔ یعنی اشارہ ملائکہ کی طرف ہے ، جنہیں عرب اللہ کی بیٹیا سمجھتے تھے۔ سفارشی سمجھتے تھے اور انہیں کے بارے میں ان کا کہنا تھا۔

ما نعبدھم ۔۔۔۔۔ زلفی ” ہم ان کی بندگی اس لیے کرتے ہیں کہ یہ تو ہمیں اللہ کے بہت قریب کرتے ہیں “۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی آیت میں سفارش کی نفی کی جاتی ہے اور ایک ایسے منظر میں جو نہایت ہی خوفناک ہے “۔