آیت 22 { قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ } ”اے نبی ﷺ ! ان مشرکین سے کہیے کہ تم بلائو ان کو جنہیں تم نے معبود گمان کیا ہے اللہ کے سوا۔“ جن دیویوں اور دیوتائوں کو تم اپنے اولیاء اور مدد گار سمجھتے ہو انہیں پکار کر دیکھ لو کہ تمہیں کیا جواب دیتے ہیں ! { لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْاَرْضِ } ”وہ ذرّہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتے ‘ نہ آسمانوں میں اور نہ ہی زمین میں“ { وَمَا لَہُمْ فِیْہِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِیْرٍ } ”اور نہ ان دونوں زمین اور آسمان میں ان کا کوئی حصہ ہے ‘ اور نہ ہی ان میں سے کوئی اس کا مدد گار ہے۔“ مشرکین ِعرب کے ہاں دو طرح کے مشرکانہ اعتقادات پائے جاتے تھے۔ ان کا ایک عقیدہ تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کچھ محبوب ہستیاں ایسی ہیں جن کی بات کو وہ ٹال نہیں سکتا ‘ چاہے وہ اس کی بیٹیاں وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ہوں یا انسانوں میں سے اس کی محبوب شخصیات۔ چناچہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کی ان محبوب ہستیوں کی سفارش سے آخرت میں وہ بچ جائیں گے۔ ان کا دوسرا مشرکانہ عقیدہ یہ تھا کہ اگرچہ اللہ اس کائنات کا خالق اور مالک ہے لیکن اس نے اس کائنات کا نظام چلانے کے لیے اپنے کچھ نائبین مقرر کر کے ان میں کچھ اختیارات تقسیم کر رکھے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ جس طرح دنیا کی سلطنتوں اور حکومتوں کا نظام چلانے کے لیے تمام بادشاہ اور حکمران اپنے نائبین مقرر کر کے انہیں کچھ اختیارات تفویض کردیتے ہیں اسی طرح اللہ کے مقرر کردہ نائبین اس کائنات کا نظام چلاتے ہیں ‘ اور وہ نہ صرف اللہ کے مدد گار ہیں بلکہ اس کے اختیارات میں بھی شریک ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اس دوسری قسم کے مشرکانہ عقیدے کی نفی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ ہندوستانی دیو مالا mythology میں دیویوں اور دیوتائوں کا جو تصور پایا جاتا ہے اس میں اور ہمارے ایمان بالملائکہ میں بظاہر بہت باریک اور نازک سا فرق ہے۔ ہم بھی مانتے ہیں کہ کائنات کے اندر فرشتے اللہ کی طرف سے تفویض شدہ مختلف فرائض ادا کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے فرشتے گویا اللہ کی کائناتی حکومت کی ”سول سروس“ ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہمارا یہ عقیدہ بھی ہے کہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ‘ وہ وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم ملتا ہے۔ لہٰذا ان میں سے کسی کو مدد کے لیے پکارنا ‘ کسی سے کسی قسم کی کوئی دعا کرنا یا استغاثہ کرنا جائز نہیں۔ کسی کے نفع یا نقصان کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے ‘ اس لیے دعا کے لیے پکارنا بھی اسی کو ہے۔ استمداد بھی اسی سے ہے اور استغاثہ بھی اسی سے۔ وہ قادرمطلق ہے ‘ وہ چاہے تو کسی کی براہ راست مدد کر دے یا کسی کی تکلیف رفع کرنے کے لیے کسی فرشتے کو بھیج دے۔ اس کے برعکس دیو مالائی تصور یہ ہے کہ جو ہستیاں اللہ کے نائبین کے طور پر کائنات کے اندر مختلف فرائض سنبھالے ہوئے ہیں وہ اللہ کے اختیارات میں بھی حصہ دار ہیں۔ چناچہ ان کے حضور اپنی حاجات بھی پیش کی جاسکتی ہیں ‘ ان سے دعا بھی کی جاسکتی ہے اور ان سے استغاثہ بھی کیا جاسکتا ہے ‘ جس کے جواب میں وہ اپنے پکارنے والوں کی حاجت روائی بھی کرتے ہیں اور مشکل کشائی بھی۔ چناچہ نظریاتی طور پر دیکھا جائے تو یہ باریک سا فرق دراصل زمین و آسمان کا فرق ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دیومالائی مشرکانہ تصورات دراصل ”ایمان بالملائکہ“ ہی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔