قرآن کریم میں جہاں جہاں اہل ایمان کی جزاء کا ذکر ہے وہاں ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر ضرور کیا گیا ہے اس لیے کہ اسلامی نظریہ حیات کا مزاج یہ نہیں ہے کہ ایمان محض منجمد ، پوشیدہ ، معطل اور مجرد تصور ہی ہو بلکہ ایمان کو ایک زندہ ، فعال اور متحرک حقیقت ہونا چاہئے۔ جب وہ دل میں پیدا ہو ، قرار پکڑے پورا ہو ، تو متحرک ہو کر عملی شکل اختیار کرے۔ وہ حرکت اور طرز عمل کی شکل اختیار کرے اور عالم واقعہ میں اس کے آثار اپنی ترجمانی کریں۔ اور یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس مومن کے دل میں کیا ہے۔ یہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو عملی شکل دی۔
لھم جنت النعیم (31: 8) ” ان کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے “۔ یہ باغات اور یہ دوام
اللہ کے عہد کے مطابق ان کو دیا جا رہا ہے۔
وعد اللہ حقا (31: 9) ” یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے “۔ اللہ کی مہربانی اس حد تک آگے بڑھ گئی کہ اس نے اپنے اوپر اپنے بندوں کے ساتھ احسان کرنا فرض کرلیا۔ یہ ان کی نیکی اور ان کے نیک اعمال کے بدلے میں حالانکہ اللہ تو غنی ہے۔ اسے کسی کے عمل کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
وھو العزیز الحکیم (31: 9) ” وہ تو زبردست و حکیم ہے “۔ وہ اپنے عہد کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ مخلوقات کو اس نے بڑی حکمت سے بنایا ہے۔ وعدہ بھی حکمت سے کرتا ہے اور پورا بھی حکمت سے کرتا ہے۔
اس بات کی دلیل کیا ہے کہ اللہ عزیر و حکیم ہے اور اس سے قبل جو کچھ کہا اس کا ثبوت کیا ہے ؟ یہ عظیم کائنات جس کی تخلیق کا دعویٰ کوئی انسان اور کوئی قوت نہیں کرسکتی ماسوائے اللہ کے۔ یہ کائنات بہت ہی عظیم ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اس کا نظام نہایت مستحکم اور دقیق ہے۔ اس کی ساخت نہایت ہی متوازن ہے۔ جوں جوں اس کائنات کے بارے میں زیادہ معلومات ہوتی ہیں اور انسان غور کرتا جاتا ہے ، عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان کا تصور بھی رک جاتا ہے اور یہ عظیم کائنات ایک ایسی دلیل اور ایک ایسی شہادت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جس سے کوئی منہ نہیں موڑ سکتا۔ جو بھی ذرا غور کرے ، ذات باری کے تسلیم کرنے کے سوا اس کے لیے چارہ کار ہی نہیں ہے اور جو لوگ پھر بھی اللہ وحدہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں وہ ھق کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔
0%