اللہ الذی خلقکم ۔۔۔۔۔۔۔۔ معذرتھم ولا ھم یستعتبون (54 – 57 یہ ایک بہت ہی طویل مطالعاتی سفر ہے۔ اس کا آغاز تو انسانی زندگی کے آغاز سے ہوتا ہے اور یہ ہمارے سامنے ہے اور آئے دن کا مشاہدہ ہے۔ اس کا آخری حصہ نہایت ہی اگرچہ مشہور نہیں ہے لیکن قرآن کی تصویر کشی ایسے الفاظ میں کرتا ہے کہ گویا وہ ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ یہ ایک ایسا مطالعاتی سفر ہے کہ چشم بینا رکھنے والوں کے لیے اور کھلے کان رکھنے والوں کے لئے اور کان لگا کر سننے والوں کے لیے اس میں سامان عبرت ہے۔
اللہ الذی خلقکم من ضعف (30: 54) ” اللہ ہی تو ہے جس نے ضعف کی حالت سے تمہاری پیدائش کی “۔ یہ کہا کہ تمہیں ضعف سے پیدا کیا۔ یہ نہ کہا کہ تمہیں ضعیف پیدا کیا۔ گویا ان کی حیات کے آغاز کا عنصر ہی ضعیفی ہے اور یہاں جس ضعف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے کئی مفہوم اور مظاہر ہیں اور یہ مظاہر انسان کے اندر قابل مشاہدہ ہیں اور مزید مشاہدات ہوتے جاتے ہیں۔ وہ چھوٹا سا خلیہ جس سے جنین بنتا ہے جو بہت ہی خوردبینی اور چھوٹا سا ہے اور ضعیف ہے۔ پھر جنین اور اس کے تمام مدارج حالت ضعف ہیں۔ پھر زمانہ طفولیت سب کا سب حالت ضعف ہے ، اس وقت تک جب انسان مکمل نوجوان ہوجاتا ہے۔ پھر وہ مادہ جس سے انسان بنتا ہے ، ضعیف ہے مٹی۔ اگر اس میں نفخ زبانی نہ ہوتی تو یہ مٹی ہی ہوتی یا نباتات ہوتے یا حیوانات ہوتے۔ جو انسان کے مقابلے میں سب حالات ضعف ہیں۔ پھر انسان اپنی خواہشات کے سامنے کمزور ہے۔ امتحانات ، میلانات سے اسے مجبور کردیتے ہیں ، اگر اللہ کی جانب سے نفخ روح نہ ہوتا تو انسان اس احسن تقدیم میں نہ ہوتا۔ اس کے اندر یہ صلاحیتیں نہ ہوتیں اور یہ بھی دوسرے حیوانات کی طرح ایک ضعیف اور لاچار حیوان ہوتا۔
ثم جعل من بعد ضعف قوۃ (30: 54) ” پھر اس ضعف کے بعد تمہیں قوت بخشی “۔ ایسی قوت اور ان معنوں میں قوت جن معنوں میں ضعف بیان ہوا۔ جسمانی قوت ، انسانی ساخت میں قوت ، انسان کی نفسیاتی اور روحانی قوت اور انسان کی فکری اور عقلی قوت۔
ثم جعل من بعد ضعف قوۃ ضعفا وشیبۃ (30: 54) ” پھر اس قوت کے بعد تمہیں ضعیف اور بوڑھا کردیا “۔ انسانی جسم ڈھیلا پڑگیا ، بڑھاپا دراصل انسان کی تمام قوتوں کے اندر طفولیت کی طرف رجوع ہوتا ہے۔ کبھی کبھی اس کے اندر نفسیاتی گراوٹ بھی آجاتی ہے اور انسان ضعیف الارادہ ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ایک بوڑھا اس طرح لایعنی باتیں کرتا ہے جس طرح ایک بچہ ہوتا ہے۔ اس کے ارادے کے اندر کوئی قوت نہیں ہوتی۔ بڑھاپے کے ساتھ بالوں کی سفیدی دراصل بڑھاپے کو مجسم کردیتی ہے اور بالوں کی سفیدی کے ساتھ قوائے انسانی کا ضعف سامنے نظر آتا ہے۔ یہ ادوار ، جس سے کوئی فانی چیز نہیں بچ سکتی اور جس شخص کو طویل عمر نصیب ہو ، ان کے اندر کبھی کوئی دور غائب نہیں ہوتا ، کبھی یوں نہیں ہوتا کہ ان میں سے کوئی دور اپنے وقت پر نہ آئے۔ ان ادوار کا اسی ترتیب کے ساتھ ہر شخص پر آنا اس بات کا مظہر ہے کہ یہ انسان کسی مدبر ہستی کے کنڑول میں ہے۔ وہ ہستی جو چاہتی ہے ، تخلیق کرتی ہے ، جو چاہتی ہے ، مقدر بناتی ہے اور جس طرح چاہتی ہے ، ہر مخلوق کے لیے اس کے حالات اور طور طریقوں کا منصوبہ بناتی ہے۔ یہ سب کام اللہ کے پختہ علم ، اس کی تقدیر اور گہری ٹیکنالوجی کے مطابق انجام پاتے ہیں۔
یخلق ما یشآء وھو العلیم القدیر (30: 54) ” وہ جو کچھ چاہتا ہے ، پیدا کرتا ہے ، جو سب کچھ جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ لہٰذا اس محکم اور ٹیکنیکل اور نقشے کے مطابق بنی ہوئی اس مخلوق کا کچھ با معنی انجام بھی ہے۔ ہاں اس کا ایک نہایت ہی با معنی انجام اور فلسفہ ہے اور دیکھو اسے ایک منظر میں جو قیامت کے مناظر میں سے ایک پر تاثیر منظر ہے اور حرکت اور مکالموں سے ہر منظر میں پیش کیا جاتا ہے۔
ویوم تقوم الساعۃ ۔۔۔۔۔ غیر ساعۃ (30: 55) ” اور جب وہ ساعت برپا ہوگی تو مجرم قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں ٹھہرے ہیں “۔ ان کے احساس میں دنیا میں گزرا ہوا پورا زمانہ سکڑ جائے گا۔ اس لیے وہ اپنے احساس کے مطابق قسم کھائیں گے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ قبروں میں گزرے ہوئے زمانہ کے بارے میں یہ کہہ رہے ہوں کہ
یہ زمانہ اس قدر مختصر تھا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد پورا زمانہ ہو۔ یعنی زمین کی زندگی کا اور پھر قبروں میں رہنے کا۔
کذلک ۔۔۔۔ یوفکون (30: 55) ” اسی طرح وہ دنیا کی زندگی میں دھوکہ کھایا کرتے تھے “۔ اور حق سے منہ پھیرتے تھے اور دنیا میں بھی انہوں نے واقعات کا صحیح اندازہ نہ لگایا تھا۔ چناچہ اہل علم اور اہل ایمان ان کے اس خیال کی تصحیح کردیں گے۔
وقال الذین ۔۔۔۔۔ کنتم لا تعلمون (30: 56) ” مگر جو اہل علم اور ایمان سے بہرہ مند کیے گئے تھے ، وہ کہیں گے کہ خدا کے نوشتے میں تو تم روز حشر تک پڑے رہے ہو ، سو یہ وہی روز حشر ہے ، لیکن تم جانتے نہ تھے “۔ یہ صاحبان علم و بصیرت وہی تھے جو اہل ایمان تھے۔ جنہوں نے حشر پہ یقین کیا ہوا تھا۔ اور انہوں نے وہ حقائق بھی جان لیے تھے جو اس ظاہری دنیا کے پیچھے تھے۔ یہ لوگ بھی معاملے کو اللہ کے علم کے سپرد کردیتے ہیں۔
لقد لبثتم ۔۔۔۔۔ یوم البعث (30: 56) ” درحقیقت اللہ کی کتاب میں تم یوم حشر تک رہے ہو “۔ یہ ہے وہ میعاد مقرر۔ اور اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ حشر تک پہنچتے پہنچتے تمہیں کتنی دیر لگی۔ یہ تھا مقررہ دن اور یہ آگیا دیکھ لو۔
اب یہ منظر ایک اجمالی کلیہ کی شکل میں ختم ہوتا ہے اور اس میں بتایا جاتا ہے کہ اب ظالموں کو کیا حالات پیش آنے والے ہیں جو حشر اور قیامت کی تکذیب کرتے تھے۔
فیومئذ لا ینفع ۔۔۔۔۔ یستعتبون (30: 57) ” پس یہ وہ دن ہوگا جس میں ظالموں کو ان کی معذرت کوئی نفع نہ دے گی اور نہ ان سے معافی مانگنے کے لیے کہا جائے گا “۔ نہ ان کی کوئی معذرت قبول ہوگی اور نہ کوئی ان پر عتاب کرے گا کہ تم نے ایسا ایسا کیوں کیا ہے۔ مانگو معافی ، توبہ کرو ، کیونکہ آج تو سزا ہوگی ، یہاں کسی کو کوئی سرزنش نہ ہوگی ، یہ یوم عقاب ہوگا ، یوم عتاب نہ ہوگا۔ اب اس برے اور مایوس کن منظر سے واپس لاکر انہیں ان کے اس حال میں لایا جاتا ہے جس میں وہ اپنے عناد اور تکذیب میں ڈرے ہوئے تھے۔ یہ تھا عناد کا انجام اور یہ تھا تکذیب کا خاتمہ۔
0%