You are reading a tafsir for the group of verses 30:43 to 30:45
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

فاقم وجھک للدین ۔۔۔۔۔ انہ لا یحب الکفرین (43 – 45)

دین قیم کی طرف متوجہ ہونے والے کے لیے قرآن جو شکل تجویز کرتا ہے وہ نہایت ہی اثر انگیز ہے اور یہ بتاتی ہے کہ متوجہ ہونے والا شخص اپنی پوری توجہ سے اس طرف مڑ گیا ہے۔ وہ سنجیدہ اور سیدھا ہے۔

فاقم وجھک للدین القیم (30: 43) ” اپنا رخ مضبوطی کے ساتھ جما دو دین راست کی سمت میں “۔ نہایت اہتما ، نہایت توجہ ، صددر حکم کے انتظار کی طرح ، نہایت پختگی کے ساتھ اپنا رخ عالم بالا کی طرف کر دو جس طرح ایک فوجی (اٹن شن) کی حالت میں ہوتا ہے۔ دین قیم کی طرف رخ جما دینے کا حکم پہلی مرتبہ اس سورة میں اس وقت آیا تھا جب بات لوگوں کی خواہشات نفسانیہ کے پیچھے وڑنے کے موضوع پر ہو رہی تھی اور مختلف احزاب مختلف سمتوں میں دوڑ رہی تھیں۔ یہاں شرکاء کے مقابلے میں یہ حکم آیا ہے۔ رزق کے اضافے کے مضمون کے موقعہ پر ہے۔ شرک کی وجہ سے فساد پیدا ہونے اور لوگوں کی بدعملی کی وجہ سے پوری دنیا میں فساد پھیلنے کے مضمون کے موقعہ پر یہ حکم آیا ہے۔ اس کے بعد یہاں بتایا جاتا ہے کہ جس نے اچھے عمل کیے تو وہ اچھا پھل پائیں گے اور جس نے برے کام کیے تو اس کا برا نجام ہوگا۔ یہ دن ایسا ہوگا کہ جہاں لوگوں کے دو فریق ہوں گے ، اہل ایمان اور اہل کفر اور ہر ایک کا اپنا انجام ہوگا اور یہ دن اٹل ہوگا۔

من کفر فعلیہ ۔۔۔۔۔ یمھدون (30: 44) ” جس نے کفر کیا ہے اس کے کفر کا وبال اس پر اور جن لوگوں نے نیک عمل کیا ہے ، وہ اپنے ہی لیے (فلاح کا راستہ) صاف کر رہے ہیں “۔ یمھد کا مفہوم ہے تیار کرنا ، کنڑول میں لانا ، پنگھوڑا تیار کرنا جس میں بچہ آرام سے رہتا ہے ، راستہ تیار کرنا ، بستر تیار کرنا ، جس پر آرام کیا جاتا ہے۔ تمام مفاہیم کا مطلب یہ ہے کہ اپنے لیے کسی چیز کو ہموار کرتے ہیں۔ یمھدون سے عمل صالح کے مزاج ، نوعیت اور اس کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ جو لوگ عمل صالح کرتے ہیں وہ دراصل خود اپنے لیے آرام ، خوشگواری اور مسرت کا ماحول تیار کرتے ہیں ، یعنی حالت عمل میں بھی ان کو یہ نتائج مل جاتے ہیں ، بعد کی بات تو اور ہے۔ قرآن کے انداز تعبیر یمھدون سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے۔

لیجزی الذین ۔۔۔۔۔ من فضلہ (30: 45) ” تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو اپنے فضل سے جزا دے “۔ فضل سے جزاء دینے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان جنت کا مستحق صرف اپنے اعمال ہی پر نہیں ہوسکتا۔ انسان جس قدر اعمال بھی کرے ان سے وہ اللہ کے ایک معمولی فضل کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔ جنت صرف فضل ربی سے مل سکتی ہے۔ اللہ سبحانہ کافروں کو بہت ہی ناپسند کرتے ہیں۔

انہ لا یحب الکفرین (30: 45) اب یہاں اللہ کی بعض نشانیوں کی سیر کرائی جاتی ہے۔ اللہ کی نشانیاں ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لیے وہ فضل و رحمت بھی ہیں۔ ان نشانیوں کی وجہ سے انسان کو رزق فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ ان کے لیے ہدایت ہے لیکن وہ اللہ کی ان نشانیوں میں سے بعض کو پہچانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔

Maximize your Quran.com experience!
Start your tour now:

0%