گزشتہ سبق میں جہاں بنی اسرائیل کی وعدہ خلافیوں کا ذکر کیا گیا تھا ، اس میثاق کی طرف اشارہ بھی کیا گیا تھا ۔ یہاں اس معاہدہ کی بعض شقوں کی طرف تفصیلی اشارہ کیا جاتا ہے ،
پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ساتھ جس معاہدہ کا ذکر کیا ہے وہ وہی معاہدہ ہے جو ان کے ساتھ کوہ طور کو ان کے سروں پر لٹکانے کے بعد طے پایا تھا ۔ اور جس کے بارے میں انہیں تاکید کی گئی تھی کہ وہ اسے مضبوطی سے پکڑیں اور اس کے اندر جو ہدایات انہیں دی گئی ہیں انہیں یاد رکھیں ۔ غالبًا اس کے اندر دین کے اساسی امور کا بیان تھا اور یہ اساسی امور وہی ہیں جواب اسلام نے ان کے سامنے پیش کئے ہیں اور جنہیں وہ کوئی عجیب اور نئی چیز سمجھ کر رد کررہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جو عہد کیا تھا ، وہ جن امور پر مشتمل تھا ، ان میں سے ایک اہم امر یہ تھا کہ وہ صرف اللہ کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، یعنی وہ مکمل توحید کا عقیدہ اختیار کریں ۔ اس عہد میں یہ حکم بھی تھا کہ والدین ، رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ اس میں یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کریں اور ظاہر ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اچھی باتوں میں سرفہرست ہے ۔ نیز اس عہد میں نماز فرض کی گئی تھی اور زکوٰٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا تھا ، غرض یہ سب چیزیں ایسی تھیں جو اسلام کے اندر بھی اساسی امور سمجھے جاتے ہیں اور یہ سب باتیں اسلام میں فرض قرار دی گئی ہیں۔
اس عہد کے مطالعے سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔
ایک یہ کہ اللہ کا دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے جو اسلام ہے اور یہ کہ اسلام اس دین کی آخری کڑی ہے اور اس میں سابقہ شرائط کی تمام اصولی باتوں کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ دوسری حقیقت یہ عیاں ہوتی ہے کہ یہودیوں کو دین اسلام سے بےحد بغض تھا ۔ اسلام انہیں محض انہیں باتوں کی طرف بلارہا تھا جس کا انہوں نے اپنے اللہ سے معاہدہ کررکھا تھا لیکن اس کے باوجود اس کا انکار کررہے تھے۔
ان کے اس شرمناک طرز عمل کی وجہ سے انداز گفتگو غائبانہ کلام سے تبدیل ہوکر خطاب کی شکل اختیار کرلیتا ہے حالانکہ اس سے قبل بنی اسرائیل کو چھوڑ کر مومنین کو خطاب کیا جارہا تھا اور ان کے سامنے ان کے برے کارنامے بیان کئے جارہے تھے۔ ان کے یہ سیاہ کارنامے بیان کرتے کرتے اچانک ان سے مخاطب ہونا ان کے لئے سخت شرمندگی کا باعث ہے ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلا قَلِيلا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ ” مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھرگئے ہو اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔ “
اس سے وہ بعض راز معلوم ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی اس عجیب کتاب میں واقعات کو بیان کرتے ہوئے ، کلام میں اچانک التفات کیوں ہوتا ہے ۔ اور اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ؟