وقالوا لن تمسنا النار الا اياما معدودة قل اتخذتم عند الله عهدا فلن يخلف الله عهده ام تقولون على الله ما لا تعلمون ٨٠
وَقَالُوا۟ لَن تَمَسَّنَا ٱلنَّارُ إِلَّآ أَيَّامًۭا مَّعْدُودَةًۭ ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ ٱللَّهِ عَهْدًۭا فَلَن يُخْلِفَ ٱللَّهُ عَهْدَهُۥٓ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ٨٠
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

یہاں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایک ایسی دلیل اور حجت کی تلقین کرتے ہیں جو باطل کا سر کچل دیتی ہیں۔” کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے ، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا ؟ “ اگر کوئی ایسا عہد تم نے لے رکھا ہے تو بتاؤ وہ کہاں ہے ؟” یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہوتا۔ “ یہ سوالیہ انداز بات کو اور مضبوط بنانے کے لئے اختیار کیا گیا ہے ۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے پاس اللہ کا کوئی عہد نہیں ہے ۔ سوالیہ انداز میں ناپسندیدگی اور زجر وتوبیخ کے معانی بھی مضمر ہوتے ہیں ۔

یہاں اب اس سلسلے میں ، انہیں ایک فیصلہ کن بات بتادی جاتی ہے کہ ان کے اس دعوے کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ بات جزاء وسزا کے متعلق اسلام کے عالمگیر تصور ہی سے ماخوذ ہے اور بطور قاعدہ کلیہ بتادیا جاتا ہے کہ جزا عمل کے مطابق ہوگی ۔ جیسا کروگے ویسا بھروگے ۔