You are reading a tafsir for the group of verses 2:78 to 2:79
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اب ان دونوں گروہوں میں سے ہم کس سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ مشرف بایمان ہوگا۔ حق کی آواز پر لبیک کہے گا اور ہدایت پر قائم ہوجائے گا ۔ اور اپنے آپ کو نازل شدہ کتاب کی ان نصوص کی تحریف سے بچالے گا جو ان کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں ۔ غرض ایسے لوگوں سے کوئی امید نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں گے ۔ مسلمانوں کی بات مان کردیں گے ۔ ان کی قسمت میں تو تباہی اور بربادی لکھی ہوئی ہے اور یہ تباہی اور بربادی جو ان کی نوشتہ تقدیر ہے اس لئے ان کے لئے مقرر کی ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے آیات لکھیں اور پھر انہیں اللہ کی طرف منسوب کرڈالا ۔ یہ تباہی اور بربادی خود ان کے ہاتھ کی کمائی ہے ۔ کیونکہ انہی ہاتھوں سے انہوں ان آیات کو تراشا اور اللہ کی طرف منسوب کیا۔

ان کی خواہشات اور باطل آرزوؤں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ جس قدر بدکاری اور احکام کی جتنی خلاف ورزی بھی کریں بہرحال وہ نجات پانے والوں میں سے ہوں گے۔ وہ جہنم کی آگ میں چند دن رہیں گے اور اس کے بعد جنت کی طرف جانکلیں گے ، ظاہر ہے کہ ان یہ تمنا ان کے نظام عدالت ، اس کی سنت دائمہ اور جزا وسزا کے صحیح تصور کے سراسرخلاف ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی اس آرزو کی بنیاد کیا ہے ۔ وہ کس وثیقہ کی بنیاد پر اس وقت کا تعین کرتے ہیں ، گویا اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان کوئی باقاعدہ معاہدہ ہوگیا ہے ۔ اور اس کے اند ران کی تعذیب کی معیاد متعین ہوچکی ہے ۔ یہ خیال جاہل لوگوں کی بےبنیاد آرزو اور خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے اور دوسری جانب سے یہ تصور ان کے فریب کار علماء کے کذب وافتراء کا پلندہ ہے ۔ یہ ایسی آرزوئیں ہیں جن کا سہارا وہ تمام لوگ لیا کرتے ہیں جو صحیح عقیدہ اور نظریہ حیات چھوڑ چکے ہیں ، اس پر ایک عرصہ گزرچکا ہوتا ہے اور اپنے حقیقی دین کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں رہا ہوتا۔ وہ اپنے دین کے صرف نام اور چند ظاہری رسومات کے سوا اور کچھ نہیں جانتے ۔ اور دین کی حقیقت اور اس کے اصل موضوع سے بیخبر ہوجاتے ہیں لیکن چونکہ وہ اپنے آپ کو اس دنیا کی طرف منسوب کرتے ہیں ، اس لئے سمجھتے ہیں کہ بس یہ زبانی نسبت ہی ان کی نجات کے لئے کافی ہوگی۔