You are reading a tafsir for the group of verses 2:75 to 2:77
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

مدینہ کے لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان کے اس قدر جلد آپ کو پہچان لینے اور آپ کو مان لینے کا ایک سبب یہ تھا کہ وہ یہودی پڑوسیوں سے اکثر سنتے رہتے تھے کہ ایک آخری نبی آنے والے ہیں۔ اس بنا پر نبی آخر الزماں کی آمد کی خبر ان کے لیے ایک مانوس خبر تھی۔ یہ مسلمان طبعی طورپر اس امید میں تھے کہ جن یہودیوں کی باتیں سن کر ان کے دل کے اندر قبولِ اسلام کا ابتدائی جذبہ ابھرا تھا وہ یقیناً خود بھی آگے بڑھ کر اس پیغمبر کا ساتھ دیں گے۔ چنانچہ وہ پُر جوش طورپر ان یہودیوں کے پاس اسلام کا پیغام لے کر جاتے اور ان کو دعوت دیتے کہ وہ آپ پر ایمان لا کر آپ کا ساتھ دینے والے بنیں۔

مگر مسلمانوں کو اس وقت سخت دھکا لگتا جب وہ دیکھتے کہ ان کی امیدوں کے برعکس یہودِ مدینہ ان کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس کے نتیجے میں ایک اور فتنہ پیدا ہو نے لگاتھا۔وہ فتنہ یہ تھا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں سے کہتے کہ پیغمبر اسلام کا معاملہ اتنا یقینی نہیں جتنا تم لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ اگر وہ اتنا یقینی ہوتا تو مدینہ کے یہ یہودی علماء ضرور ان کی طرف دوڑ پڑتے۔ کیوں کہ وہ آسمانی کتابوں کے بارے میں تم سے زیادہ جانتے ہیں ۔

مگر کسی بات کو قبول کرنے کے لیے اس بات کا جاننا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کے بارے میں سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ پچھلی قوموں کا حال یہ تھا کہ انھوں نے خود اپنے پاس کی ان کتابوں میں تبدیلیاں کر ڈالیں جن کو وہ آسمانی کتابیں مانتے تھے۔ اپنی مقدس کتابوں میں وہ جس بات کو اپنی خواہش کے خلاف دیکھتے اس میں تاویل یا تحریف کرکے اس کو اپنی خواہش کے مطابق بنا لیتے۔ وہ اپنے دین کو اپنے دنیوی مفادات کے تابع بنائے ہوئے تھے۔ جو لوگ اپنے عمل سے اس قسم کی غیر سنجیدگی کا ثبوت دے رہے ہوں وہ اپنے سے باہر کسی حق کو ماننے پر کیسے راضی ہوجائیں گے۔

کوئی بات خواہ کتنی ہی برحق ہو، اگر آدمی اس کا انکار کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی تاویل ڈھونڈ لے گا۔ اس تاویل کی آخری صورت کا نام تحریف ہے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے معاملہ کی سنگینی آدمی کے دل سے نکل جاتی ہے۔ وہ خدا کے حکم کو سنتا ہے مگر لفظی تاویل کرکے مطمئن ہوجاتا ہے کہ اس کا اپنا معاملہ اس حکم کی زد میں نہیں آتا۔ وہ خدا کو مانتا ہے مگر اس کی بے حسی اس کو ایسے ایسے کاموں کے لیے ڈھیٹ بنادیتی ہے، جو کوئی ایسا آدمی ہی کرسکتا ہے جو نہ خدا کو مانتا ہو اور نہ یہ جانتا ہو کہ اس کا خدا اس کو دیکھ رہا ہے اور اس کی باتوں کو سن رہا ہے۔