undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

گزشتہ درس کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے قلوب کی حالت کا جو نقشہ کھینچا تھا۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا تھا کہ وہ نہایت سنگدل ، خشک اور ناقابل تغیر دل و دماغ کے مالک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایسے پتھروں سے تشبیہ دی تھی جو نہایت ہی ٹھوس تھے اور جن میں پانی کا کوئی قطرہ برآمد نہ ہوتا تھا ۔ اس قدر کھردرے تھے کہ انسان ان پر سہولت سے ہاتھ نہیں پھیر سکتا تھا ۔ ان کے اندر کسی چیز کا اگنا یا ان کے اندر زندگی کے آثار پیدا ہونا تو یہ سرے سے ممکن ہی نہ تھا۔

یہ ایک ایسی تصویر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس جامد دماغ ایسی پست فطرت اور ایسی بےلچک متعصبانہ ذہنیت کی وجہ سے اس قابل ہی نہیں رہے کہ راہ ہدایت پر آجائیں ۔ چناچہ اس تصویرکشی اور ان کی طرف سے مایوس ہوجانے کے بعد اس اشارے کے بعد کلام کا رخ بعض ایسے مسلمانوں کی طرف پھرجاتا ہے جو اب بھی یہ خیال کرتے تھے کہ شاید بنی اسرائیل راہ ہدایت پر آجائیں ۔ ایسے لوگ کوشش کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے دلوں میں ایمان انڈیل دیں ، کسی طرح انہیں ایمان کی روشنی کی طرف لے آئیں ۔ قرآن کریم اس طرز پر سوچنے والے مومنین کو سوالیہ انداز میں مایوس کردیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس سلسلے میں ان کے دلوں میں امید کی جو آخری کرن ہے اسے بھی دل سے نکال دیں۔

أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ” اے مسلمانو ! اب کیا تم ان لوگوں سے یہ توقع رکھتے ہو کہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی ۔ “

خبردار ! ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی کوئی امید نہیں ہے ۔ ایمان لانے والوں کا مزاج ہی دوسرا ہوتا ہے ان میں کچھ دوسری ہی صلاحیتیں ہوتی ہیں ۔ ایمان لانے والی طبیعت نرم ، سادہ اور سہل ہوتی ہے ، اس کے دل و دماغ کے دریچے ہر قسم کی روشنی کے لئے کھلے ہوتے ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ازلی وابدی سرچشمہ ہدایت سے جڑنے اور سیراب ہونے کے لئے ہر وقت وہ تیار ہوتی ہے۔ اس کے اندر احساس ، احتیاط اور خدا خوفی ہوتی ہے اور یہ خدا خوفی اس بات سے روکتی ہے کہ خدا کے کلام کو سن کر ، اسے سمجھ کر پھر اس میں تحریف کرے۔ محض ذاتی خواہش کے لئے اور محض تعصب کی خاطر کلام الٰہی میں تحریف کرے کیوں کہ ایمان لانے والی طبیعت ، بالکل سیدھی سادھی ہوتی ہے اور وہ اس قسم کی کجروی اور بات کو توڑ موڑ کر پیش کرنے سے محترز رہتی ہے۔

پھر یہاں جس طبقے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ (یہود) سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔ اور اس سچائی کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کی کتاب میں اتاری ۔ جیسے علمائے یہود کا طبقہ ، جو ان کے نبی پر اتری ہوئی کتاب تورات کو سنتے تھے ، سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود اسے بدل ڈالتے تھے اور اس میں ایسی تاویلات کرتے تھے کہ بات کچھ کی کچھ بن جاتی تھی اور یہ بات وہ اس لئے نہ کرتے تھے کہ انہیں کلام کا صحیح محل معلوم نہ تھا بلکہ وہ یہ حرکت سوچ سمجھ کر بالارادہ کیا کرتے تھے اور یہ جانتے ہوئے کرتے تھے کہ وہ تحریف کررہے ہیں ۔ خواہشات نفس اور مصلحت کے ہاتھ میں ان کے فکر وعمل کی لگام تھی اور ذلیل اغراض کے نغموں کے پیچھے مست ہوکر دوڑ رہے تھے ۔ جب وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے ، جس پر ان کا ایمان بھی تھا تو قرآن کریم جو حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا ، اس کے ساتھ تو انہیں اس سے بھی بدتر سلوک کرنا ہی تھا کیونکہ وہ حضرت محمد ﷺ پر سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے ۔ لہٰذا اپنی اس خراب ذہنیت اور باطل رویے پر وہ جان بوجھ کر اصرار کرتے تھے ۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی ذہنیت خراب ہے اور یہ کہ وہ سوچ سمجھ کر باطل پر اصرار کررہے ہیں یا پھر ان کی جانب سے دعوت اسلامی کی یہ مخالفت اور تحریک اسلامی کے خلاف سازشیں اور بہتان تراشیاں کوئی خلاف توقع امر نہیں رہتا۔