اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی۔ پھر اس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھوپنے لگے اور اللہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو ، اسے کھول کر رکھ دے گا ، اس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ۔ دیکھو اس طرح اللہ مردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو۔ “
قرآن کریم نے یہ قصہ اس انداز میں بیان کیا ہے ، اس کے کئی پہلو غور وفکر ہیں ۔ اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے قومی مزاج اور ان کی موروثی جبلت کو اچھی طرح اجاگر کردیتا ہے ۔ نیز اس سے موت وحیات کی حقیقت ، موت کے بعد اٹھائے جانے کی کیفیت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت بےپایاں کا اظہار بھی ہوتا ہے ، پھر اس قصے میں بیان اور طرز ادا کی فنی خوبیاں بھی قابل لحاظ ہیں۔ قصے کا آگاز ، اس کی انتہا اور سیاق وسباق سے اس کی ہم آہنگی قابل غور ہیں۔
مختصراًیہ کہ بقرہ کے اس قصے میں بنی اسرائیل کے قومی خدوخال بڑی خوبی سے ظاہر کئے گئے ہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کہ اس صاف و شفاف سرچشمے وحی الٰہی اور ان کے دلوں کے رابطے ٹوٹ چکے ہیں۔ ایمان بالغیب ، اللہ پر توکل ، اور اصولوں پر نازل شدہ ہدایت الٰہی کی تصدیق سے محروم ہوچکے ہیں ۔ اللہ کے احکام وہدایات کے قبول کرنے میں وہ ہر وقت متأمل ہیں اور پس وپیش کرتے ہیں ۔ ہر وقت جھوٹے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اور بارہا اپنی چرب زبانی اور دل کی بےباکی کی وجہ سے وہ شعائر دین کے ساتھ مذاق کرنے پر اترآتے ہیں ۔
ان کے پیغمبر انہیں اللہ کا صاف صاف حکم سناتے ہیں ۔” اللہ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم گائے ذبح کرو ۔ “ ظاہر ہے کہ یہ حکم اپنے الفاظ میں بالکل صاف اور واضح تھا اور اس پر عمل کیا جاسکتا تھا ۔ حکم سناننے والے نبی ان کے وہ محبوب رہنما تھے ، جن کی قیادت میں اللہ نے انہیں فرعونیوں کے دردناک عذاب سے نجات دی تھی اور نجات کا یہ کام اللہ کی خاص رحمت ، نگرانی اور ہدایات کے مطابق ایک حیرت انگیز معجزانہ انداز میں اپنے انجام کو پہنچا تھا ۔ ان کے نبی نے انہیں واضح طور پر بتادیا کہ یہ کوئی ان کی ذاتی رائے یا ذاتی حکم نہیں ہے بلکہ یہ اس رب ذوالجلال کا حکم ہے جس کی ہدایات کے مطابق بنی اسرائیل کو لے کر چل رہے ہیں ۔ اب ذرا غور کیجئے ! یہ لوگ اس جلیل القدر نبی کو کیا جواب دیتے ہیں ؟ نہایت گستاخی ، حماقت اور بےحیائی سے وہ اپنے نبی سے کہتے ہیں کہ کیا وہ ان کے ساتھ مذاق کررہا ہے ۔ ان کی بےحیائی تو دیکھئے کہ ان کے نزدیک گویا الہ کی معرفت رکھنے والا ایک عام آدمی بھی نہیں ، بلکہ اللہ کے جلیل القدر نبی اور کسی عام معاملے میں بھی نہیں ، بلکہ کے اللہ کے نام پر اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے معاملے میں برسرعام اور لوگوں کے سامنے مذاق کرسکتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا کیا تم ہم سے مذاق کررہے ہو۔ “
اس احمقانہ اور سفیہانہ بہتان کے جواب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نعوذبا للہ پڑھنے کے سوا اور کر ہی کیا کرسکتے تھے ، چناچہ آپ بڑی نرمی کے ساتھ اشاروں اور کنایوں میں انہیں سمجھاتے ہیں کہ اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں کس قدر ادب واحترام لازم ہے ۔ آپ انہیں سمجھاتے ہیں کہ انہوں نے جو بہتان باندھا ہے اس کا ارتکاب وہی کرسکتا ہے جو بارگاہ قدس کے آداب واحترام سے واقف ہو ۔ اور اس کے دل میں اللہ کی عظمت اور قدر ومنزلت ہو ۔ چناچہ آپ نے کہا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ موسیٰ نے کہا ، میں اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں۔ “
یہ ہے ہدایت و رہنمائی ان کے لئے کافی تھی کہ اب وہ ہوش میں آجائیں ، اپنے رب کی طرف لوٹیں اور اپنے نبی کے حکم کی تعمیل کریں لیکن بہرحال وہ بنی اسرائیل تھے ۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ حکم آئے اور وہ عمل پیرا ہوجائیں۔