undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ........ یعنی مسلمان

وَالَّذِينَ هَادُوا ............ یعنی وہ جو اللہ کی طرف راہ پاگئے وہ جو ” یہودا “ کی اولاد ہیں۔

وَالنَّصَارَى........ ........ یعنی عیسائی

وَالصَّابِئِينَ میرے نزدیک راحج یہ ہے کہ صابئین سے مراد مشرکین کے وہ لوگ ہیں ، جو بعثت سے قبل مشرکین کے موروثی شرکیہ دین سے برگشتہ ہوگئے تھے۔ انہیں بتوں کی پوجا کی معقولیت میں شک لاحق ہوگیا تھا ۔ اس لئے انہوں نے خود اپنے غور وفکر سے اپنے لئے خود کوئی عقیدہ تجویز کرنے کی کوشش کی اور اس آزادنہ غور وفکر کے نتیجے میں وہ عقیدہ توحید پر پہنچ گئے تھے ۔ ان لوگوں کا دعویٰ یہ تھا کہ وہ ابتدائی دین حنیف پر ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کیا تھا ۔ چناچہ ان لوگوں نے بتوں کی پوجا ترک کردی تھی ، اگرچہ وہ اپنی قوم کو عقیدہ ٔ توحید کی طرف دعوت نہ دیتے تھے ۔ ان لوگوں کے بارے میں مشرکین کہتے ہیں تھے کہ یہ لوگ صابی ہوگئے ہیں ۔ یعنی اپنے باپ دادا کا دین انہوں نے ترک کردیا ہے جیسا کہ بعد میں یہی طعنہ مشرکین ان مسلمانوں کو بھی دیا کرتے تھے ۔ یہ جو بعض تفاسیر میں آیا ہے کہ یہ لوگ ستارہ پرست تھے ۔ اس کے مقابلے میں یہ قول راحج معلوم ہوتا ہے۔

آیت کا مقصد یہ ہے کہ ان گروہوں میں سے جو بھی ایمان لائے ، اللہ پر اور یوم آخرت پر اور اس کے ساتھ ساتھ عمل صالح بھی کرے تو وہ اپنے رب کے نزدیک اجر کا مستحق ہوگا۔ اسے کسی قسم کا خوف اور حزن وملال نہ ہوگا کیونکہ اسلام میں دارومدار نظریہ اور عقیدے پر ہے ، کسی قوم اور نسل پر نہیں ، لیکن عمل وجزاء کا یہ اصول بعث محمدی ﷺ سے پہلے کے ادوار سے متعلق ہے ۔ آپ کی بعث کے بعد ظاہر ہے کہ ایمان باللہ کی آخری شکل (اسلام کی صورت میں ) متعین ہوگئی ہے۔

اس کے بعد مسلمانوں کو سناتے ہوئے اور یہود مدینہ کو سامنے رکھتے ہوئے بنی اسرائیل کے کچھ کارنامے بیان کئے جاتے ہیں۔