undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

حضرت موسیٰ ، ان کی طفلانہ درخواست سن کر سخت رنجیدہ ہوئے ۔

” کیا ایک بہتر چیز کے بجائے ، تم ایک ادنیٰ درجے کی چیز لینا چاہتے ہو ؟ “ اللہ تعالیٰ تو تمہارے لئے بلند یاں پسند کرتا ہے اور تم ہو کہ گرے جارہے ہو۔

” اچھا کسی شہری آبادی (یا مصر) میں جارہو ، جو کچھ مانگتے ہو ، وہاں مل جائے گا۔ “

اس کے دومعنی ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو کچھ وہ طلب کررہے ہیں وہ تو بالکل ایک معمولی چیز ہے ۔ اس لئے کوئی لمبی چوڑی درخواست دینے اور دعا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، کسی شہری آبادی میں چلے جائیں وہاں یہ چیزیں بڑی مقدار میں انہیں مل سکتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ تم دوبارہ لوٹ کر مصر چلے جاؤ، جہاں سے تمہیں نکالا گیا تھا۔ اپنی اس مالوف ذلت آمیز اور گھٹیا درجے کی غلامانہ زندگی کو دوبارہ اختیار کرلو ۔ تمہیں کافی مقدار میں ساگ۔ ترکاریاں ، گیہوں ، اور لہسن پیاز وغیرہ سب دستیاب ہوں گے ۔ اور اس بلند نصب العین کو چھوڑ ہی دو جس کے لئے تمہیں چن لیا گیا تھا۔ اگر یہ دوسرا مفہوم لیاجائے تو یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے ایک قسم کی تادیب اور توبیخ ہوگی اور انہیں شرم دلانا مقصود ہوگا۔

اگرچہ بعض مفسرین نے اس دوسرے معنی کو مستبعد سمجھا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس کے بعد آنے والے نتیجے پر غور کیا جائے تو یہی مفہوم زیادہ مناسب ہے ۔ فرمایا جاتا ہے۔

” آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط کردی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے ۔ “

ان پر ذلت اور خواری کا ہمیشہ کے لئے مسلط ہونا ، اور ان کا اللہ کے غضب میں گھرجانا ، تاریخی لحاظ سے اس مرحلے میں واقع نہیں ہوا۔ یہ لوگ ذلیل و خوار زمانہ مابعد میں ، اس وقت ہوئے جب کہ وہ بہت سی برائیوں میں مبتلا ہوگئے اور جس کا ذکر اس آیت کے آخری حصے میں ہوا۔

” یہ نتیجہ تھا ، اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے ۔ یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ حدود شرع سے نکل جاتے تھے۔ “

اور ان برائیوں کا صدور ، ان سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کے کئی نسلیں بعد ہوا ۔ لیکن یہاں چونکہ انہوں نے ساگ ترکاریوں ، گیہوں اور لہسن پیاز وغیرہ کا

مطالبہ کردیا تھا ، اس لئے ، ان کے مکروہ موقف کی مناسبت سے یہاں ہی بتادیا کہ منجملہ اور اسباب کے ان کی ذلت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ ان چیزوں کا مطالبہ کررہے تھے ۔

اس لئے مناسب یہی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول کہ ” کسی شہر میں جاکر آباد ہوجاؤ۔ “ اس پر محمول کیا جائے گا کہ آپ انہیں مصر کی غلامانہ زندگی یاد دلا رہے ہیں اور انہیں بتلاتے ہیں کہ وہ اس زندگی سے چھٹکارا پانے پر شکر ادا کریں ۔ اور ان کی نفسانی ذلیل خواہشات کے پیچھے نہ بھاگیں ، جن کے وہ مصر کی ذلیل و خوار زندگی میں خوگر ہوگئے تھے ۔

راہ ہدایت کی طرف بلانے والے مصلحین اور پیغمبروں پر ، بنی اسرائیل نے جو مظالم ڈھائے اور ان کے ساتھ وہ مسلسل جو وحشیانہ اور سنگدلانہ برتاؤ کرتے رہے ، اس کی مثال کسی دوسری قوم کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ انہوں نے کئی انبیاء ومصلحین کو ذبح کیا ، قتل کیا بلکہ آرے سے چیر ڈالا کیا ہی بدترین اور وحشیانہ فعل ہے جو ان سے صادر ہوا ........ انہوں نے کفر اور حد سے گزرجانے کی بدترین مثالیں پیش کیں ۔ ظلم و زیادتی کی وحشیانہ مثالوں میں وہ سب سے بازی لے گئے۔ اور سرکشی اور نافرمانی کا ایک ریکارڈ قائم کردیا۔ غرض فسق وفجور کے ان سب میدانوں میں انہوں نے وہ وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیئے جو انہی کا حصہ تھے اور ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ، پھر بھی وہ طویل و عریض اور بڑے بڑے دعوے کرتے رہے ۔ ان کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ تھا کہ صرف وہی ہیں جو ہدایت یافتہ کہلاسکتے ہیں ۔ صرف وہی اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں ، وہی اللہ کی جانب سے اجر وثواب کے مستحق ہیں ۔ اللہ کا فضل وکرم ان کے لئے مخصوص ہے اور اس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ قرآن کریم یہاں ان کے دعاوی کی تردید کرتے ہوئے ایک قاعدہ بیان کردیتا ہے اور یہ قاعدہ قرآن کریم کے تمام قصص کے درمیان بار بار دہرایا جاتا ہے ۔ کبھی پہلے اور کبھی ان کے آخر میں ۔ یعنی یہ کہ ایمان کی حقیقت ایک ہے۔ صحیح عقیدہ ایک ہی ہے ، بشرطیکہ اس عقیدے کے نتیجے میں انسانی اللہ کے سامنے جھک جائے اور ایمان ایسا ہو کہ اس سے عمل صالح کے چشمے پھوٹ رہے ہوں اور یہ کہ اللہ کا فضل وکرم کوئی محدود چیز نہیں ہے نہ کسی نسل سے مخصوص ہے ۔ وہ تمام مؤمنین کے لئے ہے ۔ تمام لوگ ، چاہے جس زمان ومکان سے بھی تعلق رکھتے ہوں ، اللہ کے اس ازلی ابدی دین کے مطابق اس کے فضل وکرم کے مستحق رہے ہیں اور رہیں گے اور آخر میں آخری دین (محمدی) اور آخری نبوت کے مطابق مومنین کا انجام یہ ہوگا۔