حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب فرمایا۔ اور انہوں نے یہ درخواست اپنے رب سے کی اور اس نے قبول فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ وہ ایک متعین پتھر کو اپنے عصا سے ماریں ۔ آپ نے حکم کی تعمیل کی اور پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ یہ بارہ چشمے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کی تعداد کے مطابق تھے ۔ کیونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پوتوں کے بعد یہ لوگ بارہ قبیلوں میں تقسیم ہوگئے تھے ۔ حضرت یعقوب کا نام اسرائیل تھا جس کی طرف یہ لوگ نسبت کرتے ہیں ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پوتے اسباط کے نام سے مشہور ہیں ، جن کا ذکر باربار قرآن کریم میں آیا ہے ۔ یہ لوگ بنی اسرائیل کے سربراہ تھے ۔ اور قبائلی نظام کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے۔ اور قبائلی نظام میں قبیلے کی نسبت اکثر اوقات مورث اعلیٰ کی طرف کردی جاتی ہے۔ چناچہ قرآن کریم کہتا ہے قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ ” ہر قبیلے نے جان لیا کہ کون سی جگہ ہے اس کے پانی لینے کی۔ “ یعنی وہ چشمہ جو بارہ چشموں سے ان کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے۔ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلا تَعْثَوْا فِي الأرْضِ مُفْسِدِينَ ” اس وقت انہیں ہدایت کردی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھر۔ “
بنی اسرائیل کی حالت یہ تھی کہ وہ خشک صحرا کی پتھریلی زمین میں تھے ۔ آسمان اوپر سے آگ کے شعلے برسا رہا تھا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پتھروں سے پانی نکالا ۔ آسمان سے من وسلویٰ ، شہد وپرندوں کا انتظام فرمایا ، لیکن ان کی فاسد اور گری ہوئی ذہنیت اور گری ہوئی فطرت اور عادات نے انہیں اس بلند مقام تک پہنچنے نہ دیا جس کے لئے انہیں مصر سے نکالا گیا تھا۔ اور اس بےآب وگیا صحرا میں ڈال دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے جس ذلت و خواری سے اس لئے نکالا تھا کہ ارض مقدس دوبارہ ان کے اقتدار میں آجائے اور وہ اس ذلت اور خواری کی زندگی سے باہر نکل آئیں ۔ ظاہر ہے کہ حریت وآزادی اور عزت وآبرو کے حصول کے لئے کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ جو امانت کبریٰ ان کے حوالے کی جارہی تھی اس کا کسی قدر شکرانہ بھی لینا مقصود تھا۔ لیکن بنی اسرائیل تو ایسے لوگ تھے جو اس کی کوئی قیمت ادا نہ کرنا چاہتے تھے ۔ نہ وہ تکالیف اور آزمائشوں کو انگیز کرسکتے تھے ۔ اس لئے وہ اس مقام رفیع کا کوئی شکرانہ دینے کے لئے بھی تیارنہ تھے ۔ نہ وہ یہ چاہتے تھے کہ مصر میں وہ جس طرح کی پرکیف اور پر آسائش زندگی بسر کررہے تھے اسے چھوڑ دیں ۔ یہاں تک کہ وہ اس بلند مرتبے کے لئے اپنے مالوف کھانوں اور پینے کی چیزوں کو بھی ترک نہ کرسکتے تھے اور کسی طرح بھی آمادہ نہ تھے کہ عزت وشرف اور حریت وآزادی کے حصول کے لئے ، وہ اپنی زندگی کو کسی قدر نئے سانچے میں ڈھالیں ۔ وہ تو وہی کھانے چاہتے ہیں جن کے وہ مصر میں عادی تھے ۔ اور ساگ ، ترکاری ، گیہوں اور لہسن وغیرہ کے دالدادہ تھے ۔ یہاں مدینہ میں قرآن کریم انہیں ان کے پارسائی کے ان طویل و عریض دعو وں کے جواب میں یہ کہتا ہے کہ ذرا اپنی تاریخ کے اوراق توالٹیں اور دیکھیں کہ انہوں نے کیا کیا کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔