undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

بعض روایات میں اس کی تصریح آتی ہے کہ اس گاؤں سے مراد بیت المقدس ہے ۔ مصر سے خروج کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ اس شہر میں داخل ہوجائیں ۔ اس وقت اس میں عمالقہ آباد تھے ۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم تھا کہ وہ ان لوگوں کو نکال دیں۔ لیکن بنی اسرائیل نے اس سے انکار کردیا اور کہا تھا ” اے موسیٰ ! اس شہر میں ایک جبار قوم آباد ہے ۔ ہم تو اس میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے ۔ اگر وہ نکل جاتے ہیں تو ہم داخل ہوں گے ۔ “ نیزاسی شہر کے بارے میں انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا ” اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم ہرگز اس شہر میں داخل نہ ہوں گے ، جب تک کہ یہ لوگ اس شہر میں موجود ہیں ، جائیں آپ اور آپ کا رب لڑیں ان سے ، ہم توی ہیں بیٹھے ہیں ۔ “ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی یہ سزا دی کہ وہ چالیس سال تک بھٹکتے پھرے ۔ ان کی موجودہ نسل سب مرگئی ، ایک جدید نسل تیار ہوگئی اور اس نے حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں اس شہر کو فتح کیا اور یہ لوگ شہر میں داخل ہوئے ۔ لیکن اس طویل سز ا کے بعد بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا کہ خشوع و خضوع اور تواضع سے جھک کر شہر میں داخل ہوں اور حطۃ حطۃ پکاریں ، انہوں نے ویسا نہ کیا ۔ شہر میں داخلے کی جو صورت اللہ تعالیٰ نے تجویز کی تھی اس کے مطابق داخل نہ ہوئے ، نیز وہ لفظ بھی ادانہ کئے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔

یہاں اللہ تعالیٰ ، ان کی اس تاریخی نافرمانی کو نقل کرکے ان کے سامنے رکھتے ہیں ۔ نیز تاریخی لحاظ سے یہ واقعہ پیش بھی ، موضوع زیربحث میں یعنی خروج بنی اسرائیل کے متصلاً بعد آیا تھا ۔ اس لئے یہاں اس کا بھی ذکر ہوا ۔ قرآن کریم کا یہ انداز بتارہا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ کو ایک اکائی تصور کرتا ہے جس کا آغاز ، وسط اور انتہابالکل یکساں ہے ۔ کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ اپنی پوری تاریخ میں ، مخالف حق ، سرکش ، نافرمان اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تاریخی طور پر یہ واقعہ جو بھی ہو اس کا کوئی یقینی علم ہمیں نہیں ہے۔ البتہ قرآن کریم ان کے سامنے جو واقعہ پیش کررہا ہے ۔ اس کا انہیں علم ہے ۔ وہ اس بات کو جانتے ہیں جس کی طرف یہاں اشارہ کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی تھی اور وہ اس خاص شہر میں داخل ہوئے تھے ۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ خضوع اور خشوع کی حالت میں ، اس شہر میں داخل ہوں اور اللہ سے دعا کریں کہ وہ ان کی ان غلطیوں کو معاف کرے ۔ نیز اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی غلطیوں کو معاف کردے گا ۔ اور نیکی کرنے والوں پر اپنا مزید فضل وکرم کرے گا ۔ لیکن ان لوگوں نے اپنی عادت مستمرہ کے مطابق اس حکم کی بھی خلاف ورزی ہی کی فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ ” مگر جو بات کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا “