You are reading a tafsir for the group of verses 2:51 to 2:54
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کا بچھڑے کو خدا بنا لینا ، اور اس کی پوجا کرنا ، جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے لئے کوہ طور پر گئے تھے ، سورة بقرہ سے پہلے نازل ہونے والی سورت ، سورت طہٰ میں بالتفصیل بیان ہوا ہے ۔ یہاں صرف انہیں اس کی یاددہانی کرائی جارہی ہے کیونکہ وہ اس کی تفصیلات سے خوب واقف ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں یاد دلا رہے ہیں کہ ان کی یہ حالت تھی کہ نبی کے اوجھل ہوتے ہی بچھڑے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ حالانکہ نبی نے انہیں فرعونیوں کے دردناک عذاب سے محض اللہ تعالیٰ کے نام پر رہائی دلائی تھی ۔ اللہ تعالیٰ یہاں ان کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ ” اور تم ظالم تھے۔ “ اس سے بڑاظالم اور کون ہوگا ، جو اللہ کی بندگی ترک کرکے اپنے پیغمبر کی وصیت کو بھلاکر ، ایک بچھڑے جیسے جسم کی پوجا شروع کردے ، حالانکہ اللہ ہی تھا ، جس نے اسے ان لوگوں کی غلامی سے نجات دی جو گائے کے بچھڑے کو مقدس سمجھتے تھے ۔

لیکن اس کے باوجود اللہ انہیں معاف کردیتے ہیں ۔ ان کے نبی کو کتاب ہدایت ، تورات دیتے ہیں جس میں جو کچھ لکھا تھا وہ حق و باطل کے درمیان فرقان تھا ، اس امید پر کہ شاید یہ لوگ گمراہی چھوڑ کر واضح حق کو قبول کرلیں۔

لیکن پھر بھی اس بات کی ضرورت تھی کہ سنگدلی سے ان کی تطہیر کی جائے ، کیونکہ ان کی بگڑی ہوئی فطرت کو صرف ننگی تلوار اور سخت ترین عذاب کے ذریعے ہی سیدھا کیا جاسکتا تھا۔ ان کی فطرت کا تقاضا تھا کہ ان کے سزا بھی سخت ہو اور انوکھی بھی ۔ چناچہ حکم ہوا وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ ” یاد کرو ، جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو ! تم نے بچھڑے کو معبود بناکر اپنے اوپرسخت ظلم کیا ہے ، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو ، اسی میں میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے ۔ “ اپنے آپ کو قتل کروتا کہ اسے بھی پاک کردے اور خود اپنے آپ کو بھی پاک کردے ۔ تم میں سے فرمانبردار محترم قتل کرے ۔ اس سخت عذاب اور شدید کفارہ کے بارے میں روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے ۔ بیشک یہ ایک جانگسل اور روح فرسا ذمہ داری تھی کہ بھائی بھائی کو قتل کرے ۔ گویا وہ اپنے آپ کو قتل کرے ۔ لیکن اس کے بگڑے ہوئے مزاج اور بزدلانہ طبیعت کی تربیت کے لئے یہ ضروری تھا ، کیونکہ ان کا مزاج ہر شر پر مائل تھا ، اور کسی ناپسندیدہ فعل کے کر گزرنے سے وہ نہ چوکتے تھے ۔ اگر وہ ناپسندیدہ امور سے رکنے کی صلاحیت رکھتے تو نبی کے غیر حاضر ہوتے ہی وہ بچھڑے کی پوجا پر نہ پل پڑتے۔ ان کا علاج یہ تھا ۔ کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے ۔ ان کے لئے مناسب یہی تھا کہ وہ اس قسم کا بھاری بھرکم تاوان ادا کریں تاکہ انہیں کچھ نفع ہو ، اور بگڑے ہوئے مزاج کی تربیت ہو۔

لیکن اس سزا کے بعد پھر اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ” اس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کرلی ۔ کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ “

لیکن بنی اسرائیل بھی تو بنی اسرائیل تھے وہ موٹا دماغ رکھنے والے دنیا پرست اور عالم غیب اور آخرت کی نظروں سے اوجھل اور مستور تھا ۔ اس لئے انہیں صرف یہی سوجھتا کہ روئیت الٰہی کا مطالبہ کردیں اور جنہوں نے یہ مطالبہ کیا وہ کوئی عام لوگ نہ تھے ، بلکہ ان میں ستر مختار اور برگزیدہ لوگ تھے جنہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ملاقات کے موقع پر پوری قوم سے چنا تھا اور ساتھ لے گئے تھے ۔ جس کی پوری تفصیل ، اس سے پہلے کی مکی آیات میں بیان ہوچکی ہے ۔ غرض بنی اسرائیل نے علانیہ اللہ کو دیکھنے سے پہلے ، ایمان لانے سے صاف صاف انکار کردیا۔ قرآن کریم یہاں بنی اسرائیل کے آباء و اجداد کی گستاخی کو نقل کرکے یہ بتانا چاہتا ہے کہ زمانہ قدیم سے یہ قوم ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا چلی آرہی ہے اور ان کی یہ قدیم ہٹ دھرمی اس ہٹ دھرمی کے بالکل مشابہ ہے جو اس وقت یہ لوگ نبی آخر الزمان ﷺ کے مقابلے میں اختیارکئے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ خود بھی ، اپنے آباء و اجداد کی طرح معجزات کا مطالبہ کررہے ہیں اور سادہ دل مومنین کو بھی اس پر آمادہ کرنے کی سعی کررہے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سچائی کو آزمانے کے لئے معجزات کا مطالبہ کریں۔