بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔