undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ “ اس نجات کی تفصیلات سورة بقرہ سے پہلے نازل ہونے والی مکی سورتوں میں بالتفصیل آچکی تھی۔ یہاں ان لوگوں کو جو تفصیلات سے واقف تھے ، محض یاددہانی کے طور پر بتایا جارہا ہے ۔ مخاطب اس قصے کی تفصیلات کو جانتے تھے ، قرآن کریم سے یا اپنے محفوظ قصوں یا مذہبی کتابوں کی وساطت سے ، یہاں ان کے سامنے دوبارہ اس نجات کی تصویر کشی کی جارہی ہے تاکہ وہ اسے پردہ خیال پر لاکر اس سے متاثر ہوں ۔ انداز بیان تو دیکھئے کہ گویا خودمخاطب دیکھ رہے ہیں کہ دریا پھٹ رہا ہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قیادت میں دریا کو پار کررہے ہیں ۔ قرآن کریم کا یہ اسلوب بیان ، یعنی منظر کشی کے ذریعے مخاطب کو تاثر دینا ، وہ خاص معجزانہ اسلوب بیان ہے جو قرآن کے لئے مخصوص ہے ۔ اب گفتگوکا سلسلہ خروج بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتا ہے ۔ بنی اسرائیل مصر کی غلامی سے نجات پاچکے ہیں۔