You are reading a tafsir for the group of verses 2:47 to 2:48
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

بنی اسرائیل کو تمام مخلوق پر فضیلت دنیا ، اس وقت کی بات ہے جب وہ صحیح معنوں میں ، اس زمین پر اللہ کے نائب اور خلیفہ تھے ، لیکن جب انہوں نے اپنے رب اور مالک کے احکامات سے منہ پھیرلیا ، اپنے انبیاء کی نافرمانی کرنے لگے ، اللہ نے ان پر جو انعامات کئے تھے ان کی ناشکری کی اور یہ کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کر رکھے تھے ، اور جو ذمہ داریاں لے رکھی تھیں ان کا پورا تدارک کردیا ، تو اللہ تعالیٰ نے بھی فیصلہ کیا کہ اب وہ ہمیشہ کے لئے ملعون مغضوب اور ذلیل و خوار رہیں گے ، ان کی جلاوطنی اور دربدر ہونے کا فیصلہ ہوا اور وہ اللہ کے عتاب کے مستحق ہوگئے۔

انہیں یہاں یاد دلایا جاتا ہے کہ ایک وقت وہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ان پر یہ فضل وکرم تھے اور وہ دنیا کی افضل ترین قوم تھے ۔ یہ بات انہیں بطور ترغیب سنائی جارہی ہے کہ اب پھر ان کے لئے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے مواقع ہیں ۔ یوں کہ وہ اس نئے قافلہ ایمان میں شامل ہوجائیں ۔ دعوت اسلامی کا ساتھ دیں ۔ اللہ کے عہد میں دوبارہ داخل ہوجائیں اور اللہ نے ان کے آباء اجداد کو جو فضیلت دی تھی اس کا شکر وہ بھی ادا کریں اور اب مومنین کو جو مقام عنایت ہورہا ہے ، اس میں وہ بھی شریک ہوجائیں۔

لیکن اس ترغیب کے ساتھ ساتھ فضل وکرم اور نعمت عمیمہ کی یاد دہانی کے ساتھ ساتھ آنے والے دن کی ترہیب و تخویف بھی آتی ہے جس میں لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ” کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا۔ “

کیونکہ قیامت کے دن ہر شخص فرداً اپنے اعمال کا صلہ پائے گا ۔ وہاں حساب انفرادی طور پر ہوگا ، ہر کوئی صرف اپنے کئے کا جوابدہ ہوگا ، کوئی شخص کسی کے کام نہ آسکے گا ۔ یاد رہے کہ شخصی مسؤلیت ، دنیا وآخرت میں اسلام کا ایک زریں اور عظیم اصول ہے ، شخصی مسؤلیت کا یہ اصول ، انسان کے آزاد ارادہ اور اختیار تمیزی پر قائم ہے ۔ اور اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ کی جانبب سے عالمگیر عدل و انصاف ہوگا ۔ یہی وہ اصول ہے ، جو انسان کے اندر ، اس کی ذی شرف ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے ، اور اس سے اس کے دل میں دائمی بیداری کا جذبہ موجزن رہتا ہے ۔ یہ دونوں چیزیں انسان کی تہذیب اور تربیت کے لئے بےحد مفید ہے ۔ نیز ان سے ان انسانی قدروں میں اضافہ ہوتا ہے ، جن کی بنا پر اسلام نے انسان کو اشرف المخلوقات کا مقام دیا ہے۔

وَلا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ ” نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی ، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑاجائے گا ۔ “ اس دن جو شخص ایمان اور عمل صالح کا توشہ لے کر نہ آئے اس کے حق میں کوئی سفارش نہ ہوگی ۔ کفر اور معصیت کی معافی کے لئے کوئی فدیہ نہ لیاجائے گا۔ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ ” اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی ۔ “ اس دن عذاب الٰہی سے انہیں نجات دینے کے لئے کوئی ناصر وی اور نہ ہوگا۔ کوئی نہ ہوگا کو انہیں اس کے عذاب سے نجات دلاسکے ۔ اس آخری فقرے میں لفظ جمع سے سب کو یکجا بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی وہ تمام لوگ جو ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے ، اور جن کی سفارش ایک دوسرے کے بارے میں قبول نہ ہوگی ، اور ایک دوسرے کے بارے میں ان سے فدیہ نہ لیا جائے گا ، ابتدائے آیت میں بنی اسرائیل کو خطاب کیا گیا ، لیکن آخر میں کلام کا اسلوب خطاب سے غائبین کی طرف چلا گیا ، تاکہ یہ اصول عام ہوجائے اور وہ لوگ جن سے خطاب کیا جارہا ہے وہ اور دوسرے سب لوگ اس میں شامل ہوجائیں۔

اس کے بعد قرآن کریم ایک ایک کرکے اللہ کے ان انعامات کا تذکرہ کرتا ہے جو ان پر ہوتے رہے ہیں اور یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے ان انعامات کے مقابلے میں کیا طرز عمل اختیار کیا ؟ کس طرح انہوں نے انکار کیا ، کفر کیا اور راہ راست سے ہٹ گئے ؟ فرعون کی غلامی اور اس کے دردناک مظالم سے انہیں نجات دینا ان احسانات میں سے چونکہ عظیم ترین احسان تھا ، اس لئے یہاں سب سے پہلے اس کا ذکر کیا جاتا ہے ۔