آیت 48 وَاتَّقُوْا یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا قبل ازیں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ انسان کے عمل کے اعتبار سے سب سے مؤثرّ شے ایمان بالآخرۃ ہے۔ محاسبۂ آخرت اگر مستحضر رہے گا تو انسان سیدھا رہے گا ‘ اور اگر اس میں ضعف آجائے تو ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت بھی نمعلوم کیا کیا شکلیں اختیار کرلیں۔ اس آیت کے اندر چار اعتبارات سے محاسبۂاُخروی پر زور دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے فرمایا کہ ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی کام نہ آسکے گی۔وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ“ وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ“ وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ ”“ ایمان بالآخرۃ کے ضمن میں لوگوں نے طرح طرح کے عقیدے گھڑ رکھے ہیں ‘ جن میں شفاعت باطلہ کا تصور بھی ہے۔ اہل عرب سمجھتے تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے لات ‘ منات اور عزیٰ وغیرہ کے نام سے ان کے بت بنا رکھے تھے ‘ جنہیں وہ پوجتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کی یہ لاڈلی بیٹیاں ہمیں اپنے ”اباجان“ سے چھڑا لیں گی۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک ! ہمارے ہاں بھی شفاعت باطلہ کا تصور موجود ہے کہ اولیاء اللہ ہمیں چھڑالیں گے۔ خود رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کے بارے میں غلط تصورات موجود ہیں۔ ایک شفاعت حقہ ہے ‘ جو برحق ہے ‘ اس کی وضاحت کا یہ موقع نہیں ہے۔ اسی سورة مبارکہ میں جب ہم آیت الکرسی کا مطالعہ کریں گے تو ان شاء اللہ اس کی وضاحت بھی ہوگی۔ یہ سارے تصورات اور خیالات جو ہم نے گھڑ رکھے ہیں ‘ ان کی نفی اس آیت کے اندر دوٹوک انداز میں کردی گئی ہے۔ ّ َ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل پر جو احسانات و انعامات ہوئے اور ان کی طرف سے جو ناشکریاں ہوئیں ان کا تذکرہ بڑی تیزی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ واقعات کئی سو برس پر محیط ہیں اور ان کی تفصیل مکی سورتوں میں آگئی ہے۔ ان واقعات کی سب سے زیادہ تفصیل سورة الاعراف میں موجود ہے۔ یہاں پر تو واقعات کا پے بہ پے تذکرہ کیا جا رہا ہے ‘ جیسے کسی ملزم پر فرد قرارداد جرم عائد کی جاتی ہے تو اس میں سب کچھ گنوایا جاتا ہے کہ تم نے یہ کیا ‘ یہ کیا اور یہ کیا۔