آیت 45 وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط“ یہاں پر صبر کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ علماء سوء کیوں وجود میں آتے ہیں ؟ جب وہ صبر اور قناعت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں تو حب مال ان کے دل میں گھر کرلیتی ہے اور وہ دنیا کے کتے بن جاتے ہیں۔ پھر وہ دین کو بدنام کرنے والے ہوتے ہیں۔ بظاہر دینی مراسم کے پابند نظر آتے ہیں لیکن دراصل ان کے پردے میں دنیاداری کا معاملہ ہوتا ہے۔ چناچہ انہیں صبر کی تاکید کی جا رہی ہے۔ سورة المائدۃ میں یہود کے علماء و مشائخ پر بایں الفاظ تنقید کی گئی ہے : لَوْلاَ یَنْہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِہِمُ السُّحْتَ ط المائدۃ : 63 ”کیوں نہیں روکتے انہیں ان کے علماء اور صوفیاء جھوٹ بولنے سے اور حرام کھانے سے ؟“ اگر کوئی عالم یا پیر اپنے ارادت مندوں کو ان چیزوں سے روکے گا تو پھر اس کو نذرانے تو نہیں ملیں گے ‘ اس کی خدمتیں تو نہیں ہوں گی۔ چناچہ اگر تو دنیا میں صبر اختیار کرنا ہے ‘ تب تو آپ حق بات کہہ سکتے ہیں ‘ اور اگر دنیوی خواہشات ambitions مقدم ہیں تو پھر آپ کو کہیں نہ کہیں سمجھوتا compromise کرنا پڑے گا۔ صبر کے ساتھ جس دوسری شے کی تاکید کی گئی وہ نماز ہے۔ علماء یہود وضوح حق کے باوجود جو محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لاتے تھے اس کی بڑی وجہ حب مال اور حب جاہ تھی۔ یہاں دونوں کا علاج بتادیا گیا کہ حب مال کا مداوا صبر سے ہوگا ‘ جبکہ نماز سے عبودیت و تذلل پیدا ہوگا اور حب جاہ کا خاتمہ ہوگا۔ّ َ وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ ”عام طور پر یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ اِنَّہَا کی ضمیر صرف صلوٰۃ کے لیے ہے۔ یعنی نماز بہت بھاری اور مشکل کام ہے۔ لیکن ایک رائے یہ ہے کہ یہ درحقیقت اس پورے طرز عمل کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کے شدائد اور ابتلاء ات کا مقابلہ صبر اور نماز کی مدد سے کیا جائے۔ مطلوب طرز عمل یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے متعلقات میں کم سے کم پر قانع ہوجاؤ اور حق کا بول بالا کرنے کے لیے میدان میں آجاؤ۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز کو اپنے معمولات حیات کا محور بناؤ ‘ جو کہ عماد الدّین ہے۔ فرمایا کہ یہ روش یقیناً بہت بھاری ہے ‘ اور نماز بھی بہت بھاری ہے۔ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ ”“ ان خشوع رکھنے والوں پر ‘ ان ڈرنے والوں پر یہ روش بھاری نہیں ہے جن کے دل اللہ کے آگے جھک گئے ہیں۔