آیت 44 اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ ان آیات کے اصل مخاطب علماء یہود ہیں ‘ جو لوگوں کو تقویٰ اور پارسائی کی تعلیم دیتے تھے لیکن ان کا اپنا کردار اس کے برعکس تھا۔ ہمارے ہاں بھی علماء اور واعظین کا حال اکثر و بیشتر یہی ہے کہ اونچے سے اونچا وعظ کہیں گے ‘ اعلیٰ سے اعلیٰ بات کہیں گے ‘ لیکن ان کے اپنے کردار کو اس بات سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہوتی جس کی وہ لوگوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی درحقیقت علماء یہود کا کردار بن چکا تھا۔ چناچہ ان سے کہا گیا کہ ”کیا تم لوگوں کو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو مگر خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟“وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ط ”تم یہ کچھ کر رہے ہو اس حال میں کہ تم اللہ کی کتاب بھی پڑھتے ہو۔ یعنی تورات پڑھتے ہو ‘ تم صاحب تورات ہو۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے علماء کا ‘ جنہیں ہم علماء سوء کہتے ہیں ‘ یہی حال ہوچکا ہے۔ بقول اقبال : خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بےتوفیق !قرآن حکیم کے ترجمے میں ‘ اس کے مفہوم میں ‘ اس کی تفسیر میں بڑی بڑی تحریفیں موجود ہیں۔ الحمد للہ کہ اس کا متن بچا ہوا ہے۔ اس لیے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ”