undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

اگلے فقرے میں انہیں ان کی دوسری بری خصلت سے روکا جاتا ہے ، ان کی عادت تھی کہ وہ باطل کو حق کا رنگ دے کر پیش کرتے تھے اور سچائی کو چھپاتے تھے ، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کیا کررہے ہیں ، ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اسلامی معاشرے کے اندر فکری انتشار پیدا ہو اور مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات کا ایک طوفان کھڑا ہوجائے۔ وَلا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ” باطل کا رنگ چڑھاکر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔ “ یہودیوں نے ہر موقع اور ہر مناسبت میں سے حق کو چھپایا ، اس میں باطل کی رنگ آمیزی کی اور جب بھی انہیں موقع ملا انہوں نے انسانیت کو دھوکہ دینے کی پوری کوشش کی ۔ اس لئے قرآن کریم نے بار بار ان کی اس صفت اور عادت کی تفاصیل کو بیان کیا۔ وہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی جماعت میں ہمیشہ فتنے اور اضطرابات پیدا کرتے رہتے تھے۔ خلجان اور انتشار پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے ۔ چناچہ ان کے اس کردار کی کئی مثالیں اسی سورت میں آگے بیان کی گئی ہیں ۔