یہود یا بنی اسرائیل کون ہیں ۔یہ حضرت ابراہیم کے پوتے، حضرت یعقوب بن اسحاق کی نسل سے تعلق رکھنےوالے لوگ ہیں ۔ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا (Juda) تھا۔ اُن سے منسوب ہو کر بعد کو یہ لوگ عام طورپر یہودی کہے جانے لگے۔ حضرت یعقوب کا عُرفی نام اسرائیل تھا۔ اس نسبت سے قوم یہود کوبنی اسرائیل (Children of Israel) بھی کہا جاتاہے۔
قرآن میں امت یہود کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے، اور ان کی تنقید کی گئی ہے۔ یہ تنقید اصلاً یہود کی شکایت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ امت مسلمہ کی نصیحت کے طورپر ہے- جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو ان کا کیا حال ہوجاتاہے- اللہ تعالی نے قرآن میں امت یہود (یا نصاری)کے حوالے سےاسی زوال کے ظاہرے کی نشاندہی فرمائی ہے، اور اہل ایمان کو بتایا ہے کہ اس وقت انھیں کیا کرنا چاہیے-
کسی گروہ پر اللہ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ وہ اس کے پاس اپنا پیغمبر بھیجے اور اس کے ذریعے اس گروہ کے اوپر ابدی فلاح کا راستہ کھولے۔ نبی آخر الزماں کی بعثت سے پہلے یہ نعمت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی مگر مدت گزرنے کے بعد ان کا دین ان کے لیے ایک قسم کی تقلیدی رسم بن گیا تھا، نہ کہ شعوری فیصلہ کے تحت اختیار کی ہوئی ایک چیز۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے حقیقت کھول دی۔ ان میں سے جن افراد کا شعور زندہ تھا وہ فوراً آپ کی صداقت کو پہچان گئے اور آپ کے ساتھی بن گئے۔ اور جن لوگوں کے لیے ان کا دین آبائی رواج بن چکا تھا ان کو آپ کی آواز نامانوس آواز لگی، وہ بدک گئے اور آپ کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔
ااگرچہ آپ کی نبوت کے بارے میں پچھلی آسمانی کتابوں میں اتنی واضح علامتیں تھیں کہ ان کے ماننے والوں کے لیے آپ کی صداقت کو سمجھنا مشکل نہ تھا، مگر دنیوی مفاد اور مصلحتوں کی خاطر انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ صدیوں کے عمل سے ان کے یہاں جو مذہبی ڈھانچہ بن گیا تھا اس میں ان کو سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ وہ بزرگوں کی گدیوں پر بیٹھ کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ مذہب کے نام پر طرح طرح کے نذرانے سال بھر ان کو ملتے رہتے تھے۔ ان کو نظر آیا کہ اگر انھوں نے نبی عربی کو سچا مان لیا تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ مفادات کا سارا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا۔ اہل کتاب کو چوں کہ اس وقت عرب میں مذہب کی نمائندگی کا مقام حاصل تھا، لوگ ان سے نبی عربی کی بابت پوچھتے۔ وہ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی بنا پر معصومانہ انداز میں کوئی ایسی شوشہ کی بات کہہ دیتے جس سے پیغمبر کی ذات اور آپ کا مشن لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجائے۔ اپنے وعظوں میں وہ لوگوں سے کہتے کہ حق پرست بنو اور حق کا ساتھ دو۔ مگر عملاً جب خود ان کے لیے حق کا ساتھ دینے کا وقت آیا تو وہ حق کا ساتھ نہ دے سکے۔
خدا کی پکار پر لبیک کہنا جب اس قیمت پر ہو کہ آدمی کو اپنی زندگی کا ڈھانچہ بدلنا پڑے، عزت وشرف کی گدیوں سے اپنے کو اتارنا ہوتو یہ وقت ان لوگوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے جو اِنھیں دنیوی جلووں میںاپنا مذہبی مقام بنائے ہوئے ہوں، مگر وہ لوگ جو خشوع کی سطح پر جی رہے ہوں ان کے لیے یہ چيزیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ وہ اللہ کی یاد میں، اللہ کے لیے خرچ کرنے میں، اللہ کے حکم کے آگے جھک جانے میں اور اللہ کے لیے صبر کرنے میں وہ چیز پالیتے ہیں جو دوسرے لوگ دُنیا کے تماشوں میں پاتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ڈرنے کی چیزاللہ کا غضب ہے، نہ کہ دنیوی اندیشے۔