You are reading a tafsir for the group of verses 2:34 to 2:39
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آدم کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کے درمیان کھڑا کیا اور سجدہ کے امتحان کے ذریعہ آدمؑ کو عملی طورپر بتایا کہ ان کے لیے زمین پر دو ممکن راہیں ہوں گی۔ ایک فرشتوں کی طرح حکم الٰہی کے سامنے جھک جانا، خواہ اس کا مطلب اپنے سے کمتر ایک بندے کے آگے جھکنا کیوں نہ ہو۔ دوسرا ابلیس کی طرح اپنےکو بڑا سمجھنا اور دوسرے کے آگے جھکنے سے انکار کردینا۔ انسان کی پوری زندگی اسی امتحان کی رزم گاہ ہے۔ یہاں ہر وقت آدمی کو 2 رویوں میں سے کسی ایک رویہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک ملکوتی رویہ، یعنی دنیا کی زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اللہ کے حکم کی تعمیل میں آدمی حق وانصاف کے آگے جھک جائے۔ دوسرا شیطانی رویہ، یعنی جب کوئی معاملہ پیش آئے تو آدمی کے اندر حسد اور گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھیں اور وہ ان کے زیر اثر آکر صاحب معاملہ کے آگے جھکنے سے انکار کردے۔

ممنوعہ درخت (forbidden tree)کا معاملہ بھی اسی ذیل کاایک عملی سبق ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک عورت اور مرد کے لیے کوئی نہ کوئی شجر ممنوعہ (forbidden tree)ہوتاہے۔ انسان کے بھٹکنے کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آجائے اور اس حد میں قدم رکھ دے جس میں جانے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ ’’منع کيے ہوئے پھل‘‘ کو کھاتے ہی آدمی اللہ کی نصرت ، بالفاظ دیگر جنت کے استحقاق سے محروم ہوجاتا ہے۔ تاہم یہ محرومی ایسی نہیں ہے جس کی تلافی نہ ہوسکتی ہو۔ یہ امکان آدمی کے لیے پھر بھی کھلا رہتا ہے کہ وہ دوبارہ اپنے رب کی طرف لوٹے اور اپنے رویہ کو درست کرتے ہوئے اللہ سے معافی کا طلب گار ہو۔ جب بندہ اس طرح پلٹتا ہے تو اللہ بھی اس کی طرف پلٹ آتاہے اور اس کو اس طرح پاک کردیتاہے گویا اس نے گناہ ہی نہیں کیا تھا۔

کسی انسانی آبادی میں اللہ کی دعوت کا اٹھنا بھی اسی قسم کا ایک سخت امتحان ہے۔ داعیٔ حق بھی گویا ایک ’’آدم‘‘ہوتاہے جس کے سامنے لوگوں کو جھک جانا ہے۔ اگر وہ اپنے کبر اور اپنے تعصب کی وجہ سے اس کا اعتراف نہ کریں تو گویا کہ انھوں نے ابلیس کی پیروی کی۔ خدا اس دنیامیں عیاناً سامنے نہیںآتا، وہ اپنی نشانیوں کے ذریعہ لوگوں کو جانچتا ہے۔ جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو پایا اسی نے خدا کو پایا اور جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو نہیں پایا وہ خدا سے محروم رہا۔