undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آیت 35 وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنت کون سی ہے ؟ اکثر حضرات کے نزدیک یہ جنت کہیں آسمان ہی میں تھی اور آسمان ہی میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی۔ البتہ یہ سب مانتے ہیں کہ یہ وہ جنت الفردوس نہیں تھی جس میں جانے کے بعد نکلنے کا کوئی سوال نہیں۔ اس جنت میں تو آخرت میں لوگوں کو جا کر داخل ہونا ہے اور اس میں داخلے کے بعد پھر وہاں سے نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے ‘ اور میرا رجحان اسی رائے کی طرف ہے ‘ کہ تخلیق آدم علیہ السلام اسی زمین پر ہوئی ہے۔ وہ تخلیق جن مراحل سے گزری وہ اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔ بائیولوجی اور وحی دونوں اس پر متفق ہیں کہ قشر ارض Crust of the Earth یعنی مٹی سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ اس کے بعد کسی اونچے مقام پر کسی سرسبز و شاداب علاقے میں حضرت آدم علیہ السلام کو رکھا گیا ‘ جہاں ہر قسم کے میوے تھے ‘ ہر شے بافراغتّ میسر تھی۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اِنَّ لَکَ اَلاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی وَاَنَّکَ لَا تَظْمَاُ فِیْھَا وَلَا تَضْحٰی۔ طٰہٰ ”یہاں تمہارے لیے یہ آسائشیں موجود ہیں کہ نہ تمہیں اس میں بھوک لگے گی نہ عریانی لاحق ہوگی۔ اور یہ کہ نہ تمہیں اس میں پیاس تنگ کرے گی نہ دھوپ ستائے گی“۔ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کو وہاں ہر طرح کی آسائشیں حاصل تھیں۔ البتہ یہ جنت صرف ایک demonstration کے لیے تھی کہ انہیں نظر آجائے کہ شیطان ان کا اور ان کی اولاد کا ازلی دشمن ہے ‘ وہ انہیں ورغلائے گا اور طرح طرح سے وسوسہ اندازی کرے گا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ کسی شخص کا انتخاب تو ہوگیا اور وہ CSP cadre میں آگیا ‘ لیکن اس کی تعیناتی posting سے پہلے اسے سول سروس اکیڈمی میں زیرتربیت رکھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں جو لفظ ہبوط اُترنا آ رہا ہے وہ صرف اسی ایک معنی میں نہیں آتا ‘ اس کے دوسرے معانی بھی ہیں۔ یہ چیزیں پھر متشابہات میں سے رہیں گی۔ اس لیے ان کے بارے میں غور و فکر سے کوئی ایک یا دوسری رائے اختیار کی جاسکتی ہے۔ واللہ اعلم !وَکُلَا مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِءْتُمَاص یہاں ہر طرح کے پھل موجود ہیں ‘ جو چاہو بلاروک ٹوک کھاؤ۔ وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ یہاں پر اس درخت کا نام نہیں لیا گیا ‘ اشارہ کردیا گیا کہ اس درخت کے قریب بھی مت ‘ جانا۔فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ تم حد سے گزرنے والوں میں شمار ہو گے۔ اب اس کی بھی حکمت سمجھئے کہ یہ اس demonstration کا حصہّ ہے کہ دنیا میں کھانے پینے کی ہزاروں چیزیں مباح ہیں ‘ صرف چند چیزیں حرام ہیں۔ اب اگر تم ہزاروں مباح چیزوں کو چھوڑ کر حرام میں منہ مارتے ہو تو یہ نافرمانی شمار ہوگی۔ اللہ نے مباحات کا دائرہ بہت وسیع رکھا ہے۔ چند رشتے ہیں جو بیان کردیے گئے کہ یہ حرام ہیں ‘ محرمات ابدیہ ہیں ‘ ان سے تو شادی نہیں ہوسکتی ‘ باقی ایک مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے دنیا کے کسی بھی کونے میں شادی کرسکتا ہے ‘ اس کے لیے کروڑوں options کھلے ہیں۔ پھر ایک نہیں ‘ دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار تک عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے باوجود انسان شادی نہ کرے اور زنا کرے ‘ تو یہ گویا اس کی اپنی خباثت نفس ہے۔ چناچہ آدم و حوا علیہ السلام کو بتادیا گیا کہ یہ پورا باغ تمہارے لیے مباح ہے ‘ بس یہ ایک درخت ہے ‘ اس کے پاس نہ جانا۔ درخت کا نام لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ تو صرف ایک آزمائش اور اس کی demonstration تھی۔