undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
undefined
3

آخرکار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹادیا اور انہیں اس حالت سے نکلواکر چھوڑا جس میں وہ تھے ۔ ہم نے حکم دیا کہ ” اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ ‘ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے ۔ “ اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی جس کو اس کے رب نے قبول کرلیا کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ “

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا ” پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ تو سب جھک گئے ۔ اب ذرا اس مفسد اور خوں آشام مخلوق کی عزت افزائی دیکھئے کہ وہ کروبیوں کی مسجود ہورہی ہے ۔ فرشتوں سے بھی بلند ہوجاتی ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے ایک تو اسے معرفت الٰہی کا راز بخشا گیا دوسرے یہ کہ اسے ایک صاحب ارادہ مخلوق بنایا گیا ہے ۔ انسان جس راہ کو اختیار کرنا چاہے آزادانہ اختیار کرسکتا ہے ۔ غرض فطرت انسانی کی یہ دورنگی اپنے ارادے پر اس کا اختیار اور اس کے ذریعے اپنے لئے راہ حیات کے تعین کی آزادی اور اپنی خاص کوششوں اور جدوجہد سے ہداقیت انسانیت کی ذمہ داری اور اس فریضے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی قدرت وغیرہ ہی وہ چیزیں ہیں جن میں اس کے اس عظیم اعزاز کا راز پوشیدہ ہے ۔

چناچہ اس تقریب میں باری تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سب فرشتے آدم خاکی کے سامنے سربسجود ہوجاتے ہیں إِلا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ” مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا “

اس تقریب میں شریر مخلوق مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے خود ذات اقدس کی بارگاہ میں باری تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے اور صاحب فضیلت کے فضل اور اعزاز کا انکار کیا جاتا ہے ۔ یہ شریر مخلوق گناہ پر مصر ہے اور فہم و فراست کے تمام دروازے اس کے لئے بند ہوجاتے ہیں ۔

سیاق کلام سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ابلیس اگرچہ فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا لیکن وہ ملائکہ میں سے نہ تھا کیونکہ اگر وہ فرشتوں میں سے ہوتا تو اسے سرتابی کی مجال نہ ہوتی کیونکہ فرشتوں کی صفت اور خاصیت یہ ہے کہ لَا یَعۡصُوۡنَ مَا اَمَرَھُمۡ وَیَفۡعَلُوۡنَ مَا یُوۡمَرُوۡنَ ” اللہ جو انہیں حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں ۔ “ اگرچہ یہ استثنائی جملہ کہ ” سب فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے “ بظاہر یہ بتاتا ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا لیکن وہ چونکہ فرشتوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا اسی لئے سلسلہ کلام میں ایسی استثناء لائی گئی ۔ عرب کہتے ہیں جَاءَ بَنُوا فُلَانٍ اِلَّا اَحۡمَدٌ فلاں قوم کے سب لوگ آگئے مگر احمد حالانکہ احمد ان میں سے نہیں ہوتا بلکہ وہ ان کے جوار میں رہتا ہے ۔ دوسری جگہ قرآن مجید اس کی تصریح کرتا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اور جنوں کو اللہ تعالیٰ نے آگ کے شعلے سے پیدا کیا ہے۔ اس سے یہ بات قطعیت کے ساتھ معلوم ہوجاتی ہے کہ وہ فرشتوں میں سے نہ تھا۔